بارڈر ملٹری پولیس اور کرپشن کلچر

راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے اضلاع اور بلوچستان کے کچھ علاقوں پر مشتمل اور صوبہ پنجاب کا بجانب مغرب و بلوچستان آخری ضلع ڈیرہ غازی خان ہے۔ جس کا 50 فیصد سے زائد رقبہ کوہ سلیمان کی خوبصورتی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے

کوہ سلیمان کے قبائلی علاقہ کی پولیسنگ باڈر ملٹری پولیس( بی ایم پی) کی ذمہ داری ہے جبکہ بلوچ لیوی فورس ایک معاون فورس ہے جوکہ ہر وقت بی ایم پی کی معاونت کاری کے لیے تیار رہتی ہے۔ جبکہ بی ایم پی کے ورکنگ ملازمین بشمول نان یونیفارم ملازم کی تعداد 343 کے لگ بھگ اور بلوچ لیوی کے ورکنگ ملازمین بشمول نان یونیفارم ملازم کی تعداد 126 کے قریب ہے۔ آپریشنل ورک کے لیے بی ایم پی کے پاس 2 عدد فور بائی فور ڈبل کیبن گاڑیاں، 3عدد فور بائی فور سنگل کیبن گاڑیاں کل 5عد د گاڑیاں اور8 عدد موٹر سائیکل ہیں۔جبکہ بلوچ لیوی فورس کے پاس ایک عدد فور بائی فور ڈبل کیبن، 4عدد فور بائی فور سنگل کیبن گاڑیاں، ایک عد د ٹرک، ایک عد کوسٹر ، ایک عد د روکی جیپ کل 8 گاڑیاں اور 4عدد موٹر سائیکل ہیں
دونوں فورسز کے پاس کل 13عدد گاڑیاں اور 12عدد موٹر سائیکل ہیں

ایس ایچ او تھانہ سخی سرور، راکھی گاج اور بواٹہ کے زیر استعمال ایک سنگل کیبن گاڑی ہے۔ جس کا پٹرول سمیت تمام خرچہ ایس ایچ او حضرات خود برداشت کرتے ہیں کیونکہ یہی تین تھانے اہم بین الصوبائی شاہراہ بلوچستان پنجاب پر واقع ہیں اور اِسی بناپر یہی تھانے بی ایم پی میں کرپشن کا اہم گڑھ ہیں۔ اِن تھانہ جات میں پوسٹنگ کے لیے ایس ایچ او صاحبان لاکھوں روپے کی رشوت برائے پوسٹنگ پہلے ادا کرتے ہیں اور پھر افسران کو لاکھوں روپے ماہانہ منتھلی دیتے ہیں۔
یہی کرپشن بی ایم پی فورس کی بدنامی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اور اِن تھانہ جات میں تعینات اہلکاروں کی کروڑوں روپے کی بے نامی جائیدادیں اور کاروبار ہیں حتی کہ اِن تھانہ جات میں تعینات سٹاف کے متعلق معتبر اداروں کی متعدد رپورٹس آن ریکارڈ موجود ہیں اور یہ وہ حقیقت ہے جس سے کوئی بھی ادارہ یا فرد انکار نہیں کر سکتا۔

کمانڈنٹ ، رسالدار فیلڈ اور رسالد ہیڈ کوارٹر کے زیر استعمال ایک ایک ڈبل کیبن گاڑی ، کل تین گاڑیاں ہیں جن کا فیول سرکاری ہوتا ہے۔
سینئر کمانڈنٹ و ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان اور کمشنر ڈیرہ غازی خان کے حفاظتی دستے میں بھی بلوچ لیوی یا بی ایم پی کی ایک ایک گاڑی ہمراہ ہوتی ہے۔ یوں کل 13گاڑیوں میں سے 6 تا 7 گاڑیاں سرکاری فیول پر چلتی نظر آتی ہیں۔ قبائلی علاقہ میں فورس کا آپریشنل ورک دیگر فورس کی نسبت پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ کیونکہ یہ پہاڑی علاقہ ہے۔ اِس لیے معمول کا گشت وغیرہ اِن علاقوں میں نہیں ہوتا۔

نیز کرائم کی شرح سالانہ اوسطا ً 300 مقدما ت اور مجرمان کی تعداد بھی انتہائی مختصر ہوتی ہے۔
جن اہلکاورں کے پاس موٹر سائیکلیں ہیں وہ بھی ذاتی خرچہ سے موٹر سائیکلیں چلاتے ہیں۔ انہیں سرکاری طور پر پٹرول نہیں ملتا۔ البتہ کاغذات میں اندارج لازمی کیا جاتا ہے۔ دونوں فورسز کے پاس کوئی تربیت یافتہ اور پڑھا لکھا ایم ٹی یعنی موٹر میکنک وٹرانسپورٹ انچارج موجود نہیں۔
اِ س وقت نور خان سوار (کانسٹیبل ) ہے جس کو انچارج ایم ٹی آفس بنایا ہوا ہے کیونکہ یہ سوار گاڑیاں چلانا یعنی ڈرائیوری کرنا جانتا ہے جبکہ غلام قادر نائب دفعہ دار کو بطور فیول سپلائی انچارج بنایا ہوا ہے جوکہ وہ بھی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں۔

حکومت پنجاب ہرسال اِن گاڑیوں کے فیول کے لیے ایک خطیر رقم بجٹ میں فراہم کرتی ہے۔ گذشتہ چھ سالوں 2013-14تا 2018.19 تک بی ایم پی کو 3کروڑ 61لاکھ 60ہزار 376روپے اور بلوچ لیوی کو 2کروڑ 96 لاکھ 7ہزار 139روپے مجموعی طور پر دونوں فورسز کو 6کروڑ 57لاکھ 67ہزار 515روپے برائے POL مل چکے ہیں۔
گذشتہ مالی سال 2018-19کے آخری ماہ جون کے آخری نو دنوں( 22جون تا 30جون تک) بی ایم پی نے فیول کی مد میں 993973روپے اور بلوچ لیوی نے فیول کی مد میں 126414روپے کل 1120387روپے خرچ کیے ہیں جبکہ مکمل مالی سال 2018-19میں بی ایم پی نے 6837376روپے اور بلوچ لیوی نے 7696139روپے، کل رقم 14533515روپے خرچ کی ہے۔

معتبر ذرائع کے مطابق دونوں فورسز کے پاس جنتی گاڑیاں موجود ہیں اور جنتا اُن کا پٹرول کا خرچہ ظاہر کیا جاتا ہے یہ سب فراڈ اور جعل سازی ہے۔
شعبہ اکاوئنٹس جعلی بل بناتے ہیں۔ افسران منظوری دیتے ہیں اور پھر ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس سے بوگس بل منظور کروا کر سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔جوکہ انتہائی قابل افسوس ہے کہ جہاں تبدیلی لانے کے لیے موجودہ حکومت کرپشن کے خلاف فرنٹ فٹ پر جنگ لڑ رہی ہے وہاں پر ہمارے سرکاری اداروں نے ابھی تک اپنا کرپشن کلچر تبدیل نہیں کیا۔

معتبر ذرائع کے مطابق فیول کے اِس بجٹ کو استعمال کرنے کے لیے افسران بالا کی مشاورت سے ڈرائیور حضرات پہلے گاڑیوں کی لاگ بک میں بوگس ریڈنگ کا اندارج کرتے ہیں۔
پھر شعبہ اکاؤنٹس کے کلرک بادشاہ جعلی رسیدوں سے بوگس بل تیار کرتے ہیں۔ افسران اُن پر منظوری کی مہر ثبت کرتے ہیں۔ پھر اُس جعلی بل کو ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس سے پاس کراکے کیش کرایا جاتا ہے۔ ناجانے یہ سلسلہ کب سے شروع ہے اور اب ناجانے کب ختم ہوگا۔ کیونکہ جب کمشنر ، ڈپٹی کمشنر اور کمانڈنٹ جیسے معتبر افسران بھی اِس کھیل کا حصہ ہوں گے تو پھر بھلا کون اور کیسے اِن فیول کے بلوں کو جعلی اور بوگس ثابت کر سکتا ہے۔
بہرحال دونوں فورسز کی کل 13گاڑیوں اور 12موٹر سائیکلوں پر سالانہ کروڑوں روپے کا فیول سرکاری خزانہ سے جلایا جارہا ہے۔

موجودہ ضلعی اعلیٰ افسران کمشنر اسد اللہ فیض، ڈپٹی کمشنر طاہر فاروق اور کمانڈنٹ سید موسی رضا ابھی تک ایماندارانہ شہرت کے حامل ہیں۔ اِن تمام افسران کو یہاں تعینات ہوئے ابھی چند ماہ گزرے ہیں۔ عوام اُمید کرتی ہے کہ کرپشن اور انسداد رشوت ستانی کے خلاف جاری قومی مہم کا حصہ بنتے ہوئے یہ افسران اِس کرپشن کی انکوائری کسی ماہر ٹیم سے کرائیں گے اور پھر انکوائری رپورٹ سے میڈیا سمیت عوام کو آگاہ کریں گے کہ کس طرح گذشتہ سالوں میں یہ جعل سازی ہوتی رہی ہے اور کون کون اِس میں ملوث رہا ہے۔ جبکہ بین الصوبائی شاہراہ پر واقع تمن لغاری کے تھانہ جات میں تعینات ایس ایچ او صاحبان کے متعلق معتبر اداروں کی رپورٹس کی روشنی میں ہمہ قسمی اسمگلنگ کے خاتمہ کے لیے اُن کی تعیناتی پر نظر ثانی کریں گے۔

وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار اِسی ضلع کے باسی ہیں انہیں بخوبی علم بھی ہے کہ کس طرح کون سا ادارہ پٹرول کی مد میں کیسے فراڈ کرتا ہے اور پٹرول کی جعلی پرچیاں بناتا ہے کیونکہ افسران کی جانب سے پٹرول پرچی سے نوازنے کی عادت ضلع ڈیرہ غازیخان میں بہت پرانی ہے۔پنجاب حکومت کے سرکاری خزانے کو بچانے کی خاطر بی ایم پی اور بلوچ لیوی اور دیگر تمام اداروں میں فیول کا آڈٹ بہت ضروری ہے۔

Comments are closed.