درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ۔۔۔ اسامہ چوہدری

آج پیپر دے کر کمرہ سے باہر آیا تو چلچلاتی ہوئی دھوپ محسوس ہوئی۔ سوچا باہر کسی فوڈ کارنر پہ بیٹھتا ہوں جب تک باقی دوست بھی باہر آجائیں گے۔سکول گیٹ سے باہر نکلا تو گیٹ کی ایک طرف معصوم سا بچہ کسی کالج کے فلائرز تقسیم کررہا تھا اسے دیکھتے ہی اچانک دل میں رحم سا آگیا۔ اس کے پاس گیا، اس سے پوچھا کہ آپ یہ کیوں تقسیم کررہے ہو تو اس نے جواب دیا کہ مجھے کسی انکل نے دیے ہیں جب میں یہ سارے تقسیم کرکے گھر جاوں گا تو مجھے سو روپیہ ملے گا ۔مجھے اس شخص پر بہت غصہ آیا کہ پھول جیسے بچے کو سو روپے کے لالچ میں تپتی دھوپ اور آگ جیسی لو میں کھڑا کیا ہوا ہے۔

خیر باقی دوست پیپر دے کر باہر آئے تو میں نے ان کو اس بچے کے بارے بتایا اور کہا کہ ہم یا تو اس شخص سے ملیں جس نے اس اس کام پر لگایا ہے یا اسکے گھر جا کر اس کے حالات معلوم کریں کیا معلوم کہ اس کے گھر آج کی افطاری کے پیسے بھی نہ ہوں۔

ہم نے منصوبہ بنایا کہ اس بچے کے سکول کا خرچہ ہم اپنے ذمے لیں گے ۔اس کے گھر پہنچے تو وہاں پر ایک درد ناک کہانی تھی ۔گھر کے مرکزی دروازے کا ایک حصہ ٹوٹا ہوا اور گھر حسرت و یاس کی تصویر نظر آرہا تھا۔

اس کی امی کو بلایا گیا اور اپنا تعارف کروایا ،اور کہا کہ ہم آپکی ہر ممکن مدد کے لئے تیار ہیں تو اس نے کہا بیٹا ہم تو باقیوں کی نسبت بہتر زندگی گزار رہے ہیں ،یہ بچہ سکول بھی پڑھتا ہے مگر سیکنڈ ٹائم کوئی نہ کوئی کام کرلیتا ہے، میرا اس سے بڑا بیٹا بھی ایک دکان پر کام کرتا ہے جس سے ہمارے گھر کا خرچ تو چل ہی جاتا ہے مگر میری ایک دوست ہے جس کے میاں فوت ہوچکے اور ان کا کمانے والا کوئی نہیں ہے اگر آپ ان کی مدد کرسکتے ہیں تو کیجیے ۔میں آپکا رابطہ ان سے کروا دوں گی ۔

اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں جو خود انتہائی کسمپرسی کی زندگی کے باوجود دوسروں کا خیال رکھنے والے ہیں۔

اور دوسری طرف وہ بے حس کالج والے جو ایک معصوم بچے کو جس کی ابھی کھیلنے کودنے کی عمر ہے جس کے ہاتھ میں اپنی کتابیں کاپیاں ہونی چاہئے تھی وہ دوسروں کے لئے ایک کالج کے فلائرز تقسیم کررہا تھا۔

Leave a reply