عمران خان کو حکومت میں آئے 9 ماہ گزر چکے ہیں۔ ان 9 ماہ میں جہاں بیورو کریسی میں خوب اکھاڑ پچھاڑ کی گئی وہاں وفاقی اور صوبائی وزیر بھی نہیں بچے۔ تبدیلی ہر جگہ عملی طور پر نظر آئی۔ ویسے تو حکومت لیموں سے لے کر ڈالر تک کی قیمتیں کنڑول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ مگر گراؤنڈ پر حالات اس سے بھی برے ہیں۔
سیاست میں نعرے لگانا ، دعوے کرنے ، باتیں بنانا بھی ضروری ہے مگر کام کرنا ایک فن ہے ۔ یہ تو ثابت ہو چکا ہے تحریک انصاف میں باتیں کرنے والے زیادہ ہیں اور کام کرنے والے کم ۔ شاید اسی لیے ہر جگہ ٹیکنو کریٹس سے کام چلایا جا رہا ہے ۔ بیورو کریسی، وزراء تو دور کی بات وزیر اعلی پنجاب کی بات نہیں سنتی ۔عثمان بزدار کی نااہلی کے چرچے تو زبان زد عام ہیں مگر پھر بھی وہ کپتان کے وسیم اکرم پلس ہیں ۔
ڈالر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ قیمت اس لیے بڑھ رہی ہے کیونکہ مشرف ، زرداری اور نواز شریف دور میں منصوعی طور پر ڈالر کی قیمت کو روکے رکھا گیا تھا ۔ جبکہ حقائق یہ ہیں کہ پیپلز پارٹی دور میں ڈالر 32 روپے، نواز شریف کے دور میں ڈالر 26 روپے اور تحریک انصاف کے ان 9 مہینوں میں ڈالر 19روپے مہنگا ہوا ہے ۔ عوام کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا ابھی چار سال اور تین ماہ کا دور حکومت باقی ہے ۔
کاروبار ختم ہو چکا ہے ۔ مارکیٹیں سنسان ہیں ۔ گاہک غائب ہیں ۔ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بند پڑا ہے ۔پرچیوں پر کاروبار ہو رہا ہے ۔ لوگ پیسہ روک کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ کسی کو حکومتی پالیسوں پر اعتماد نہیں ۔ایک کروڑ نوکریاں تو دور کی بات 30 فیصد بے روز گاری میں اضافہ ہو چکا ہے ۔ پیٹرول کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ گزشتہ دور کی حکومتیں منصوعی ٹیکس لگا کر زائد قیمتیں وصول کرتی ہیں ۔ اب شاید نئے پاکستان میں پیٹرول پر صرف ٹیکس ہی وصول کیا جا تا ہے ۔گزشتہ ادوار میں سٹاک مارکیٹ کو بھی منصوعی طور 50 ہزار سے زائد پوائنٹس پر رکھا گیا تھا جو نیا پاکستان بنتے ساتھ ہی اپنی اصل حالت میں واپس آچکی ہے ۔بجلی کے بھی منصوعی کارخانے اور منصوبے لگائے جاتے تھے ۔اسی لیے اب لوڈ شیڈنگ بالکل ختم ہو چکی ہے ۔
موٹرویز ، میٹرو بسیں ، اورنج لائن اور سٹرکوں کے جال بھی جعلی تھے۔ مگر پشاور میں اصلی بی آر ٹی منصوبہ تعمیر کیا جا رہا ہے ۔ اس لیے روز اس کا ڈیزائن تبدیل ہوتا ہے ۔ لاگت ڈبل ہو چکی ہے ۔ کسی کو نہیں پتہ کہ یہ منصوبہ کب مکمل ہو گا ۔ مگر عمران خان کو یہ یقین ہے کہ اس منصوبے میں کرپشن نہیں ہو ئی اس لیے یہاں نہ کسی سے حساب مانگا جا ئے گا نہ کسی کا احتساب کیا جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ ادوار میں کرپشن ہوئی ۔ نواز شریف سے زرداری تک ، اسفند یار ولی سے محمود اچکزئی تک ، فضل الرحمان سے شیر پاؤ تک ، سب پر کرپشن کے سینکڑوں الزامات ہیں ۔ کئی تو عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں ۔ اکثر پر نیب میں کیسسز چل رہے ہیں ۔ ان 9 ماہ میں تحریک انصاف نے شاید کرپشن نہ کی ہو ۔ مگر نا اہلی کی ایسی مثالیں قائم کیں ہیں کہ عوام کی بس ہو چکی ہے ۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے وہ ووٹر اور سپورٹر جو ان کی خاطر مرنے کو تیار رہتے تھے ۔ وہ بھی اب حکومتی کارکردگی سے مایوس دکھائی دیتے ہیں ۔ کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ کیوں چوروں ، ڈاکوؤں، لٹیروں کا پرانا پاکستان اس 9 ماہ کے نئے پاکستان سے بہتر تھا۔
کپتان کا اصل امتحان عید کے بعد شروع ہو گا جب ایک جانب اپوزیشن اکٹھی ہو کر لڑنے کے لیے تیار ہو گی تو دوسری طرف بجٹ پیش کرنا ہو گا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کپتانوں کے کپتان عمران خان اس بجٹ میں ریلیف اپنے ووٹر اور سپورٹر کو دیتے ہیں یا پھر پرانے پاکستان کے چوروں اور لیٹروں کی طرح صرف ایک خاص طبقے کو ۔
تحریک انصاف کے لیے پیغام ہے کہ ہنی مون گزر چکا عمران خان کو اب جلد کچھ عملی طور پر کر کے دکھانا ہو گا ۔ ان دعوؤں، وعدوں اور خوابوں سے مزید کام نہیں چلنا ۔اب عمران خان سے حساب بھی مانگا جائے گا اور حکومت کی کارکردگی کا احتساب بھی کیا جائے گا ۔
اپنی رائے دینے کے لیے ای میل کریں
naveedsheikh123@hotmail.com
ٹویٹر پر فالو کریں
Tweets by naveedsheikh123