پاکستانی آٹوموبائل مافیا کو نکیل کون ڈالے گا ؟. نوید شیخ

۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہم اب تک سترہزار جانیں گنوا چکے ہیں ۔ مگر کیا کسی کو معلوم ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں ٹریفک حادثات میں ایک لاکھ سے زائد لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ لاکھوں زندگی بھر کے لیے معذور ہو چکے ہیں۔ اگر موزانہ کیا جا ئے تو ٹریفک حادثات میں جانی اور مالی نقصان دہشتگردی کے خلاف جنگ سے زیادہ ہے ۔ ان حادثات کا سب سے بڑا موجب گاڑیاں خود ہیں ۔ پاکستان میں ملنے والی گاڑیوں میں کوئی سیفٹی فیچر نہیں ہوتا ہے ۔اسی لیے حادثے کے بعد جانی اور مالی نقصان کا خدشہ سوفیصد بڑھ جاتا ہے ۔

۔ پاکستان کی مقبول ترین کار کا سوال پوچھا جائے تو سب کے ذہن میں فوری طور پر سوزوکی مہران کا نام آئے گا۔ گزشتہ تیس سالوں سے پاکستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی گاڑی سوزوکی موٹرز کی مہران کار ہی ہے۔ مگر پاکستانی سوزوکی مہران کا ریکارڈ سیفٹی کے حوالے سے انتہائی مخدوش ہے۔ اقوام متحدہ نے گاڑیاں چلانے والے افراد کے تحفظ کے لیے کچھ پیمانے مقرر کررکھے ہیں۔ بدقسمتی سے مہران سمیت پاکستان میں ملنے والی کوئی بھی کار معیار پر پورا نہیں اترتی۔بولان کیری ڈبے ، سوزوکی پک اپ دنیا میں کہیں نہیں چلتے مگر ہم اب تک انکو سامان اور بچوں کی سکول وین کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور ہیں ۔ہزاروں، لاکھوں پاکستانی بچوں سمیت عام عوام ان چلتے پھر تے بموں سے جاں بحق یا معذور ہو چکے ہیں ۔ مگر یہ اب بھی سٹرکوں پر رواں دواں ہیں ۔

۔ آلٹو 660 سی سی بھی پوری دنیا میں discard ہو چکی ہے ۔ حد یہ ہے کہ یہ اب پاکستان میں لانچ کی جا رہی ہے ۔اس کی قیمت کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انشورنس ،own وغیر ہ ڈال کر بغیر کسی سیفٹی فیچر کے پندرہ لاکھ میں پاکستانیوں کو ملا کرے گی ۔ جبکہ یہ ہی آلٹو کار دنیا میں تین سے چارلاکھ روپوں میں رلتی پھر رہی ہے ۔

۔ یہ سلوک صرف پاکستان کے ساتھ ہی روا رکھا جارہا ہے۔کیونکہ حکومت چاہے تیر کی ہو، شیر کی ہو یا بلے کی ہمارے وزراء اور بیورو کریٹس کو ان مافیاز سے مٹھائی کے ڈبے ٹائم پر پہنچا دیے جاتے ہیں ۔یہی سوزوکی، ہنڈا اور ٹیوٹا جب اپنے ملک یا خطے کے دوسرے ملکوں کے لیے گاڑیاں بناتی ہے تو
وہاں سارے حفاظتی لوازمات اور شرائط پوری کی جاتی ہیں۔یہ کمپنیاں سالانہ اربوں کھربوں پاکستانیوں کی جیبوں سے اینٹھ رہی ہیں۔ مگر بدلے میں یہ کمپنیاں صرف موت دے رہی ہیں ۔ پاکستانیوں کو یہ لوہے کے ٹین ڈبے بیچے جاتے ہیں ۔جو شاید نیپال میں بھی نہ چلائی جاسکتی ہوں۔

۔ پاکستانیوں کے ساتھ المیہ یہ ہے ۔ کہ سب سے پہلے تو ہم اس خطے کیا تمام دنیا کے مقابلے میں سب سے زیادہ کسی بھی گاڑی کی قیمت کیش کی صورت میں ادا کرتے ہیں ۔ پھر اس گاڑی میں نہ کوئی سیفٹی فیچر ہوتا ہے نہ فیول کی millegae بہتر ہو تی ہے نہ ہی یہ گاڑی ماحول دوست ہو تی ہے ۔سیٹ بیلٹس لگی تو ہو تی ہیں ۔ مگر وہ کسی حادثہ سے بچانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔ پاکستان کی گنتی کی گاڑیوں میں صرف ایک ہی ایئر بیگ ہوتا ہے ۔ وہ بھی شاید کبھی کھلتا نہیں جبکہ دنیا میں آٹھ ایئر بیگز لازمی اور اب تو وہ blanket airbag کو بھی لازمی کر رہے ہیں جس میں جب گاڑی collide کرتی ہے تو ہر جگہ سے ایئر بیگز کھلتا ہے۔پاکستان میں ABS بریک بھی کسی کسی گاڑی کے نصیب میں ہے ۔ اور یہ بھی tried & tested نہیں ہے ۔

۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں ہم سے زیادہ اچھی اور زیادہ سستی گاڑیاں عوام کو مل رہی ہیں ۔ بھارت میں بھی یہ تمام کمپنیاں کام کر رہی ہیں مگر وہاں تمام سیفٹی فیچرز کو فالو کرتی ہیں ۔ اس وقت جو گاڑی بھارت میں پانچ لاکھ کی ملتی ہے وہ پاکستانیوں کو پندرہ لاکھ میں دستیاب ہے ۔ اب تو بھارت نے گاڑیاں ، موٹر بائیکس ایکسپورٹ کرنا بھی شروع کر دی ہیں ۔ کیونکہ وہ انٹرنیشنل سیفٹی اسٹینڈر فالو کر رہے ہیں ۔

۔ پاکستان کی آٹو انڈسٹری پر کئی دہائیوں سے جاپان کی سوزوکی، ٹویوٹا اور ہنڈا کمپنیوں کا راج ہے۔ یہ
کمپنیاں متحد ہو کر سستے ماڈلز کی گاڑیوں کو مہنگے داموں بیچتی چلی آ رہی ہیں۔ابھی تک گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں نے موٹر کاروں میں حفاظتی ائیر بیگ، اینٹی لاک بریکنگ یا دھواں کے بہتر اخراج جیسی خصوصیات متعارف نہیں کروائیں ہیں۔
۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک نئی آٹو پالیسی متعارف کروائے ۔ جس میں ان کمپنیوں کو اجارہ داری کو ختم کیا جا ئے ۔ ساتھ ہی سختی سے تمام سیفٹی اسٹینڈرز کو فالو کروایا جا ئے ۔ گاڑیوں کے collision ٹیسٹ لازمی قرار دیے جائیں ۔ اور یہ انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے تین لوگوں کے بس کی بات نہیں کہ اس کار مافیا کو نکیل ڈال سکیں ۔ ایک نیا محکمہ بنانا پڑے گا جو اس تمام انڈسٹری جس میں گاڑیوں ، موٹربائیکس، ہیوی ڈیوٹی ٹرک ، بسوں ، رکشوں ،ٹریکٹر بنانے والوں کو ریگولیٹ کرسکے ۔ تاکہ جب بھی کوئی حادثہ ہو ۔ اور اگر کسی گاڑی کا ایئر بیگ نہ کھلے ۔ یا اس گاڑی کے ABS بریکس کام نہ کریں تو انکوئری بٹھائی جائے ۔ اور پوری کی پوری لاٹ واپس بھجوائی جائے جیسا پوری دنیا اور مہذب معاشروں میں ہوتا ہے ۔

اپنی رائے دینے کے لیے ای میل کریں
naveedsheikh123@hotmail.com

ٹویٹر پر فالو کریں

Leave a reply