موٹر سائیکل و سائیکل اسٹینڈ والوں کی من مانی

0
35

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ہسپتالوں، عوامی مقامات، اور دفاتر میں موٹر سائیکل و سائیکل اسٹینڈ والوں کی من مانی 30 روپے کرایہ وصول کرنے لگے

کوئٹہ میں قائم سائیکل و موٹر سائیکل اسٹینڈ والے من مانا کرایہ وصول کرنے لگے۔کوئٹہ کے تمام سرکاری ہسپتالوں اور دفاتر میں قائم خود ساختہ اسٹینڈ افسران بالا کے خاص جیلوں کی گرفت میں ہیں ان میں صرف چند باقاعدہ ٹینڈر کے ذریعے قائم ہیں جبکہ زیادہ تر دفاتر میں ،ہسپتالوں میں، اور عوامی مقامات پر یہ اسٹینڈ غیر قانونی طور پر بنا لئے گئے ہیں ،جو کہ ملی بھگت ہے ،یہ اسٹینڈ والے کسی قسم کی کوئ رسید نہیں دیتے صرف لوہے کا بنا ہوا ایک ٹوکن تھما دیتے ہیں ۔اور سائیکل یا موٹر سائیکل کی گمشدگی کی ذمہ داری بھی نہیں لی جاتی ،عوامی مقامات پر قائم میونسپل کارپوریشن اور کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں اکثر سٹینڈ خود ساختہ ہیں اور بااثر مافیا کی پشت پناہی کے ذریعے چل رہے ہیں ،کرایہ بھی 30 روپے وصول کیا جا رہا ہے ۔
سرکاری بڑے ہسپتالوں بالخصوص ہیلپرز آئ ہسپتال ،بے نظیر ہسپتال سول ہسپتال میں تو با قاعدہ غنڈہ گردی کے ذریعے 30 روپے لئے جاتے ہیں۔10 روپے زائدکے حساب سے یہ رقم شہربھر میں روزانہ لاکھوں کے حساب سے ناجائز بھتہ خوری کے ذریعے ہڑپ کی جارہی ہے ،اور کوئ پوچھنے والا بھی نہیں۔ضلع کچہری کے اسٹینڈ ،ڈاک خانہ کے اسٹینڈ ،قندہاری بازار ،ستار روڈ ،بلدیہ پلازہ ، اور شہر کے ہر بڑے اسٹینڈ پر 20 روپے کی جگہ 30 روپے کی وصولی کی وجہ سے لڑائی جھگڑے کی نوبت آنے لگی ۔مگر کوئ ذمہ دار ادارہ ایکشن لینے کو تیار نہیں ۔ اگر کوئ قانونی اسٹینڈ ہے بھی تو ٹھیکیداروں نے 20 روپے کا ٹینڈر پاس کروایا ہے اور وصول 30 روپے کئے جارہے ہیں۔کسی قسم کی کوئ رسید نہیں اور کرایہ یا کمپنی یا ٹھیکیدار کا نام یا فون نمبر بھی نہیں ۔وزیر اعلی بلوچستان جام کمال سے اس ظلم اور بد معاشی کے تدارک کی اپیل ہے ۔خاص کر ہیلپرز ہسپتال ،سول ہسپتال، بی ایم سی،ضلع کچہری کے اسٹینڈ جہاں روزانہ لاکھوں مڈل کلاس اور غریب طبقہ اپنے کام کے سلسلے میں سائیکل و موٹر۔سائیکل پارک کرتا ہے ۔پرائیویٹ نہ سہی ان سرکاری اسٹینڈز پے تو ایکشن لیا جا سکتا ہے جہاں سرکاری ریٹ سائیکل 10 روپے اور موٹر سائیکل 20 روپے ہے ۔اگر آپ بھی اس ظلم اور بدمعاشی کا شکار۔ہیں تو میسج کو فارورڈ کریں ۔شاید اس میسج پے ایکشن لیا جائے۔کیوں کہ عام آدمی کی بات کوئ نہیں سنتا جو عوامی مسائل کو کم از کم اجاگر۔تو کرنا ہے ایکشن لینا افسران بالا اور حاکموں کا کام ہے ۔

Leave a reply