میرے خواب کب پورے ہونگے .تحریر:راحیلہ عقیل

0
45

جب ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے اس وقت اس بچی کے ساتھ ساتھ ماں باپ کی سوچ فکر بھی جنم لیتی ہے بچی کی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ماں باپ کی سوچ بھی پڑھتی جاتی ہے، کے کیسے بیٹی کو اسکے گھر کا کرنا ہے لیکن کیا کبھی کسی ماں باپ نے یہ سوچا ہے کے ہماری بیٹی کی بھی کچھ خواہشات ہونگی اسکے سپنے ہونگے جو روزانہ اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھے ہونگے اچھی تعلیم روشن محفوظ مستقبل کھلا آسمان، مہکتی صبح کے ساتھ پھولوں کی طرح کھلنا، گڑیا سے کھیلنا، بہن بھائیوں سے ناز اٹھوانا، والد سے فرمائشیں پوری کروانا، ماں کے آنچل میں بادلوں کی آواز سے چھپ کر سوجانا، سہیلیوں سے گھنٹوں باتیں کرنا، من پسند کتابوں کو تکیے کے نیچے چھپا کر سونا، یہ سب ایک نارمل لڑکی کے سپنے ہی تو ہیں جو وہ جینا چاہتی ہے بارہ سال کی ہوئی گھر کے کام کاج سیکھو 14 کی ہوئی تو طریقے سے ڈوپٹہ لو گھر سے اکیلے باہر جانا بند کھیلنا بند دوستی گڑیا کھلونے سب سے ناطہ توڑ کر والدین لڑکی کو اسکے گھر کا کرنے میں لگ جاتے۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ معصوم جس نے گھر کی چار دیواری کے باہر کی دنیا صرف کتابوں کہانیوں میں دیکھی وہ اچانک اتنی بڑی سمجھدار کیسے ہوگئی کے اسکو دوسرے گھر بھیجنے کی تیاری ہونے لگے وہ ہاتھوں میں مہندی لگائے خوب چمک دمک کا ڈوپٹہ اوڑھے خاندان والوں کے درمیاں بیٹھی اپنی ہتھیلیوں کو غور سے دیکھتی رہی کے آخر ابھی کچھ وقت ہی تو گزرا جب اس نے اپنی گڑیا رانو کی شادی اپنی دوست کے گڈے سے کی تھی اور آج اچانک اتنی جلدی وہ خود کسی کی دلہن بنی بیٹھی ہے اس کے سارے خوب ریت کی طرف بہہ گئے وہ رونا چاہتی تھی چیخنا چاہتی تھی پر اسکی آنکھوں کے سامنے اسکی ماں کمزور سا چہرہ لیے بیٹھی تھی ماں باخوبی واقف تھی اپنی اولاد کی حالت سے پر وہ کیا کرتی یہ خاندانی روایت ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ناجانے کب تک یونہی پھولوں جیسی نازک بچیاں اپنے خوابوں کو بکھرتا دیکھتی رہنگی کب وہ دن ہوگا جب وہ آزادی سے اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرینگی آزاد ہوا میں سانس لینگی؟؟
کسی معصوم نے اپنی مرضی سے ایک قدم جو اٹھایا اس کا حساب اپنے خون سے دینا پڑتا ایسی نا جانے کتنی معصوم بچیاں ہونگی جو نا چاہتے ہوئے بھی ماں باپ کی مرضی پر قربان ہوجاتی ہیں پھر ساری زندگی اپنے سپنوں کو روند کر زندگی کی حقیقت کا سامنا کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاش کے سب والدین اپنی اولادوں کو پڑھانے پر توجہ دیں انکو زندگی میں آگے بڑھنے کا موقع دیں ناکہ انھیں مزید دلدل میں دھکیل دیں غربت سے نکلنے کا واحد راستہ تعلیم ہے۔۔۔۔۔ جو بےحد ضروری ہے ہمارے لیے ہماری آنے والی نسلوں کے بہتر محفوظ مستقبل کے لیے

…….سوچ بدلیں وقت خود با خود بدل جاے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a reply