پاکستانی بچوں کی سوچ شاہینوں جیسی میٹرک کے طالب علم نے اپنی تحریر سے سب کو خوش کردیا

0
68

ناکامیوں سے کم نہ ہو ٸ دل کی آرزو
ٹھوکر لگی تو اور بڑھی منزل کی آرزو
میرے مارکس کیوں کم آئے؟
زیادہ نمبر لینا اور اچھی پوزیشن سے پاس ہونا کسی بھی طالب علم کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے، اور زمانے کا ٹرینڈ بھی یہی ہے، اس لیے ہر امتحان دینے والا طالب علم کو یہی درد سر لاحق ہوتا ہے. اس سال مجھے بھی پہلی دفعہ بورڈ میں پیپر دینے کی "سعادت” نصیب ہوئی. نمبروں کے حوالے سے میں نے اپنے ذہن میں ایک ٹارگٹ تیار کر رکھا تھا اور اسی کے مطابق میں نے محنت بھی کی تھی. (میری محنت اور سبق کے ساتھ میری دلچسپی کا میرے اساتذہ اور والدین شاہد ہیں) جنتی میری استطاعت تھی، میرا قوی تھا، میری صلاحیت تھی میں نے سب کچھ لگایا، رائٹنگ کا مسئلہ بھی گزشتہ سال ایک ماہر خطاط کی شاگردی میں سخت مشقت سے کام لیتے ہوئے حل کر لیا تھا، مگر جب رزلٹ اوٹ ہوئے تو مارکس میری توقع اور امید سے کافی …… بلکہ بہت ہی…… کم آئے. اب آپ سے کیا چھپاوں، میں نے سوچا تھا 500 سے اوپر کا مگر آئے 423….(پریکٹیکل والے سر کی "کرم فرمائی” تو میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا، البتہ بددعا ہرگز نہیں دوں گا)
بہر حال یہ حالت دیکھ کر میری حالت غیر ہوگئی، دل دھڑکنے لگا، دماغ میں ہلچل سی پیدا ہوگئی، رنجیدہ و شرمندہ ہو کر کمرے میں گھس کر کمبل اوڑھ کر سونے کی ناکام کوشش کی، مگر جب دل و دماغ میں ہلچل مچی ہو تو نیند کہاں سے آئے….
بہت کوشش کی اور بار بار یہ کہہ کر نیند کو پکارا اور غیرت دلائی کہ:
اب درد شش بھی سانس کی کوشش میں ہے شریک
اب کیا ہو، اب تو نیند کو آجانا چاہیے

مگر مجال ہے کہ نیند آتی، اور میں کچھ دیر غم دوران … بلکہ غم امتحان…. کو بھولنے کی "سعی لاحاصل” کرتا…
جب نیند سے مایوس ہوا تو سوچنے لگا کہ آخر میرے کم مارکس آئے کیوں؟ کیا میری محنت اور تیاری میں کوئی کسر رہ گئی تھی؟ کیا میں محنت کے ساتھ ساتھ دعاوں سے کام نہیں لیا تھا؟ محنت تو میں نے بھر پور کی تھی، البتہ تیاری دوسری چیز ہے، اس میں کسر رہ گئی ہو تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا. ہاں اپنی سی کوشش کے ساتھ میں ہر نماز کے بعد بالخصوص رمضان المبارک میں دعائیں بھی خوب مانگی تھیں…. پھر اللّہ کا وعدہ بھی ہے کہ وہ کسی کی محنت کو رائیگان نہیں جانے دیتا……
پھر سوچنے لگا کہ آخر وجہ کیا ہے؟ بہت سوچنے اور سوچ سوچ کر پاگل ہونے والا تھا کہ اچانک میرے دماغ کے دریچے کھل گئے اور بات میری سمجھ میں آنے لگی… ہم انسان کتنے جلد باز ہوتے ہیں، اور کتنی جلدی میں اپنی محنت کی برکت کو دیکھنا چاہتے ہیں…؟
یقینا اللہ تعالی کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا، اور اپنی حکمت کے مطابق صحیح وقت اور صحیح موقع پر اپنی مہربانی کرتا ہے… میں نے یہ بھی سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ اللّہ تعالی کسی انسان سے کوئی اور کام لینا چاہتا ہے، مگر وہ سماج کے trend کے مطابق ڈاکٹر یا انجنئیر بننا چاہتا ہے، (جو کہ بہت چھوٹی خواہشیں ہیں) اور اللہ تعالی اپنے اس بندے کو اپنے فیصلہ والے کام تک لے جانے اور ڈاکٹر یا انجنئیر بننے سے بچانے کے لیے مطلوبہ معیار سے کم نمبروں سے پاس کرتا ہے… میں سوچنے لگا کہ شاید یہی وجہ ہو اور اللّہ تعالی مجھ سے کوئی اور کام لینا چاہتا ہو، اور اسی وجہ سے میرے مارکس کم آئے ہوں، یہ سوچتے ہوئے میرے دل کو اطمینان ہونے لگا اور پریشانی دور ہونے لگی…. پھر اللہ تعالی کا یہ ارشاد بھی میری پریشانی دور کرنے اور اطمینان حاصل کرنے کا باعث ہوا کہ:
"بہت ساری چیزیں ایسی ہیں کہ جو تمھیں پسند نہیں، مگر اس میں تمھارے لیے خیر ہوتی ہے اور بہت ساری چیزیں ایسی ہیں کہ جو تمھیں اچھی لگتی ہیں مگر درحقیقت اس میں تمھارے لیے نقصان ہوتا ہے”
یہ آیت کریمہ یاد آتے ہی میرا غم خوشی میں اور پریشانی مسرت میں بدل گئی.. میں سوچنے لگا کہ ضرور میرے کم نمبر لینے میں قدرت کاملہ کی کوئی خاص حکمت پوشیدہ ہے… اور میں مطمئن ہونے لگا.
لہذا میں اپنے ان تمام دوستوں سے گزارش کروں گا، جن کے حصے میں محنت کے مقابلے میں کم نمبر آئے ہیں، وہ اللّہ تعالی کی اس ارشاد پر غور کرکے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں. اور یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ ہوسکتا ہے اللہ تعالی آپ سے آپ کے ذہن میں بسا ٹارگٹ سے بڑا کام لینا چاہتا ہے… اور یہ تو مسلم ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی مطلوبہ اصولوں اور طریقہ کار کے مطابق محنت کرنے والوں کو ان کی محنت کا صلہ ضرور دیتا ہے…. مگر کب دیتا ہے، یہ اس کی حکمت پر موقوف ہے… لہذا ہمیں نتائج کے لیے جلدی نہیں کرنی چاہیے…
رپورٹ : نسیم اللہ شاہین

Leave a reply