پولیس اصلاحات کے مسودے پر ڈی ایم جی افسران اور پولیس افسران میں اختیارات کی جنگ شدت اختیار کر گئ !!! حجاب رندھاوا

0
75

پولیس اصلاحات کے مسودے پر ڈی ایم جی افسران اور پولیس افسران میں اختیارات کی جنگ شدت اختیار کر گئ

‏پنجاب میں سنئیر پولیس افسران نے دھمکی دی ہے کہ اگر نئی اصلاحات کے نام پر ضلعی پولیس کو ڈپٹی کمشنر کے مزید ماتحت کیا گیا تو وہ استعفی دے دیں گے پولیس کے مطابق بیوروکریسی پولیس کو کام ہی نہیں کرنے دیتی پولیس کے کاموں میں مداخلت کی جاتی ہے ،

پولیس اصلاحات میں بیورو کریسی کے پولیس میں عمل دخل پہ پولیس سروس آف پاکستان کے بھرپور احتجاج کے بعد، وزیراعلیٰ نے وزیر قانون راجہ بشارت کے ماتحت ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کے اجلاس میں پولیس افسران اور بیوروکریسی آمنے سامنے آ گئ تلخ کلامی کے بعد افسران نے نوکریا ں چھوڑنے کی دھمکیاں بھی دیدیں۔ اجلاس میں صوبائی وزرا دونوں گروپوں کے افسروں میں صلح کروانے کی کوشش کرتے رہے ، تین گھنٹے سے زائد ہونیوالا اجلاس بے نتیجہ رہا
جبکہ راجہ بشارت کے مطابق کمیٹی کے اجلاس میں 90؍ فیصد پولیس ریفارم پیکیج کا اتفاق رائے سے جائزہ لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کو بیوروکریسی (پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروسز) کے ماتحت کیے جانے کے حوالے سے پولیس کے تحفظات دور کرنے کیلئے کچھ تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں

سول سیکرٹریٹ کے ہنگامی اعلیٰ سطحی اجلاس میں دونوں طرف سے تلخ کلامی کے بعد ایک دوسرے کو مبینہ طور پر دھمکیاں دی گئیں،بیوروکریسی نے واضح کر دیا کہ اب مسودہ تیار ہو چکا اب ہر صورت عملدآمدہوگا، پولیس کا موقف تھا کوشش کر کے دیکھ لیں اس پہ کسی صورت عمل نہیں ہوگا
پی ایس پی افسران کی رائے ہے کہ ان اصلاحات کے ذریعے سابقہ ڈی ایم جی گروپ (اور اب پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس) اصل میں پولیس پر اپنا کنٹرول واپس حاصل کرنا چاہتا ہے جیسا کہ ماضی میں نوآبادیاتی دور میں ہوا کرتا تھا۔
پولیس حکام ذرائع کا کہنا ہے پولیس ریفارمز سفارشات پرعمل درآمد پنجاب پولیس کو ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے رحم وکرم پر لے آئے گا۔ پنجاب پولیس کی آپریشنل خود مختاری اور غیرسیاسی کرنے کے مسئلے کا حل بھی سفارشات نہیں۔

پولیس حکام ذرائع نے کہا سفارشات کے تحت ڈپٹی کمشنرز کو پولیس اور امن و امان سے متعلق بے پناہ اختیارات مل جائیں گے۔ سفارشات کے تحت بے بس عام آدمی ڈپٹی کمشنر کے رحم وکرم پر ہو گا۔ سفارشات میں تھانے کی اصلاح سے متعلق کوئی تجویز نہیں دی گئی۔

وفاق حکومت نے پولیس اصلاحات کیلئے سفارشات تیار کی ہیں۔ اصلاحات پنجاب اور خیبر پختونخوا میں لائی جائیں گی۔
وفاقی سطح پر پولیس اصلاحات، قانون سازی، کابینہ کے فیصلوں کے لیے پنجاب کو 30؍ ستمبر کی ڈیڈلائن دی گئی ہے

سفارشات کے مطابق پولیس کو بیوروکریسی کے ماتحت کیا جائے گا۔ کارکردگی مانیٹرنگ کے لئے سیاستدانوں کو بھی ذمہ داریاں دی جائیں گی۔ سفارشات کے مطابق تھانوں کی انسپکشن کے لئے پولیس کو ڈپٹی کمشنر سے اجازت لینا ہو گی۔

ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں ون ونڈو ٹربلز شوٹر قائم کیا جائے گا۔ صوبے میں ون ونڈوٹربلزشوٹر کے نام سے چھتیس دفاتر قائم ہوں گے۔ عوامی وسائل کے انتخاب میں ڈپٹی کمشنر مکمل بااختیار ہو گا۔ انکوائریاں، انسپکشن بھی کراسکے گا
بیوروکریسی کے مطابق یہ سب تجاویز میجر ریٹائرڈ اعظم سلیمان کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی نے تیار کی ہیں اور یہ بہت بہتر ہیں،
بیوروکریسی کی جانب سے کہا گیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پولیس مکمل آزاد ہو، جو قانون بنائے گئے یہ اوپر سے احکامات ملے
ان کی ابتدائی منظوری وزیراعظم عمران خان دے چکے ہیں ، وزیر قانون راجہ بشارت کی زیر صدارت ہنگامی طورپر اجلاس میں صوبائی وزراانصر مجید، تیمور بھٹی، ہاشم ڈوگر، چیف سیکرٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ پنجاب سید علی مرتضیٰ، سیکرٹری آبپاشی سیف انجم، سیکرٹری بلدیات جاوید قاضی، آئی جی پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ ضعیم شیخ، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی رائے طاہر،ڈی آئی جی آئی ٹی ذوالفقار حمید، ڈی آئی جی احسن یونس، ڈی آئی جی جواد ڈوگر سمیت ریٹائرڈ پولیس افسران بھی موجودتھے ۔

پولیس کی جانب سے کچھ تجاویز پیش کی گئیں ان میں کہا گیا کہ
سپیشل برانچ کو وزیراعلیٰ پنجاب کے ماتحت دینے کے بجائے آئی جی پنجاب کے ماتحت ہی کیا جائے
لیکن پولیس اصلاحات پیکج میں کہا گیا ہے کہ جیسے انٹیلی جنس بیوروکا سربراہ وزیراعظم ہے اسی طرح سپیشل برانچ کا سربراہ وزیراعلیٰ ہو گا، لیکن اس پر بیوروکریسی کو شدید اختلافات ہیں، دوسرا پوائنٹ یہ سامنے آیا ہے کہ پولیس کمپلینٹ کمیشن محکمہ داخلہ پنجاب یا سی ایم سیکرٹریٹ کے بجائے پنجاب کی امن و امان کی کیبنٹ کمیٹی کے ماتحت کیا جائے ، جبکہ نیشنل پبلک سیفٹی کمیشن کو ایکٹو کیا جائے اور اس پر عملدرآمد کیا جائے ، جبکہ پنجاب پولیس کا الگ سے کنٹرول انسپکٹوریٹ بنانے پر بھی اختلاف کیا گیا ہے ،
بیوروکریسی کی جانب سے مسلسل ان معاملات کی مخالفت کی گئی ،
اجلاس میں سید علی مرتضیٰ اور ایک صوبائی وزیر کی جانب سے کہا گیا کہ پولیس کی جانب سے یہ انتہائی خفیہ ڈرافٹ میڈیا کے ساتھ شیئر کیا گیا
جس پر پولیس افسران سخت ناراض ہوئے اور کہاکہ آپ ہم پر الزام تراشی کر رہے ہیں
پولیس اصلاحات پیکج میں افسران کی تقرریوں کے لائحہ عمل بھی طے کیا گیا ہے کہ سینئر پولیس افسران پر مشتمل ایک انٹرنل بورڈ کارکردگی کے مظاہرے کی بنیاد پر تقرریوں کی تجاویز پیش کرے گا۔
سفارشات آئی جی کو پیش کی جائیں گی اور پھر آئی جی پولیس ڈی پی او، آر پی او اور ایڈیشنل آئی جی کے عہدوں کیلئے تین تین افسران کے نام ترتیب وار ترجیح کے ساتھ پینل کو پیش کرے گا اور ساتھ ہی کارکردگی کا چارٹ بھی منسلک کرے گا، جس کے بعد یہ تجاویز منظوری کیلئے وزیراعلیٰ کو بھجوائی جائیں گی۔ جواز پیش کرکے حکومت قبل از وقت ٹرانسفر بھی کر سکے گی۔ پنجاب حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اس مقصد کیلئے اپنے پولیس آرڈر میں فوری تبدیلیاں لائے۔
دستاویز میں مزید لکھا ہے کہ صرف تربیت یافتہ اور مصدقہ افسران کو تحقیقات (انوسٹی گیشن) اور سینئر انتظامی عہدوں پر تعینات کیا جائے۔ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر پی پی او سرٹیفکیشن فریم ورک کا تعین کرے گا۔ پنجاب حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر سرٹیفکیشن کے متعلق شقیں پولیس آرڈر میں ترامیم کرکے شامل کرے۔ سرٹیفکیشن فریم ورک تیار کرنے کیلئے پنجاب حکومت کے پاس 60؍ دن ہیں۔ پنجاب حکومت سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اسٹیشن ہائوس افسران (ایس ایچ اوز) کو ڈرائنگ اینڈ ڈسبرسنگ افسران کے طور پر بھی نامزد کرے اور اس مقصد کیلئے متعلقہ قوائد اور قانون میں ترامیم کی جائیں۔ فنانس ڈپارٹمنٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ ہر پولیس اسٹیشن کیلئے بنیادی اخراجات کا تعین کرے اور اس مقصد کیلئے پولیس کے ساتھ مشاورت کی جائے۔ یہ کام 30؍ دن میں مکمل کرنے کیلئے کہا گیا ہے.

Leave a reply