ھئمم

0
49

ھھآج کل ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں عورت کو ایک بوجھ، ذمہ داری اور بد نصیبی کی نشانی سمجھا جاتا ہے ۔ خواتین کے لئے بدقسمتی سے ایسے ایسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ وہ خود کومعاشرے کا حصہ سمجھتے سے محروم کردیتی خود کو۔ آج کل ہمارے معاشرے میں عورت کے لئے یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس کا کام صرف گھر گرہستی کرنا ہے اور خود کو شوہر کے لئے ایک بہت ہی اچھی بیوی بن کر دیکھانا ہے۔ وہ کبھی شوہر کے آگے زبان نہ چلائے،اسکی بات ہر خواہش ایک آواز میں پوری کرے۔کیوں عورت کو صرف گھر گرستی جیسے کاموں تک ہی محدود کررکھا ہے۔

عورت معاشرے کی تکمیل کے لیے اہم عنصر ہے۔ عورت ہر روپ میں انمول تحفہ ہے خدا کی طرف سے وہ صرف اپنے خاندان کی زندگی ہی نہیں بناتی بلکہ ایک خالی مکان کو گھر بنانے میں اپنی زندگی گزار دیتی ہے۔ اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیتی ہے۔ بچوں کی اچھی تربیت کرتی ہے،انکی اچھی اور اعلی پرورش کرتی ہے اور اولاد کو اچھا شہری بنانے کی کوشش میں مگن ہوجاتی ہے۔بحیثیت مجموعی عورت کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ایک مثالی ریاست،معاشرہ اور خاندان تعمیر کرے۔
آج اگر ہم اپنے ملک میں کئی علاقوں میں جائیں وہاں عورت پر نظر ڈالیں تو اس کو اعلی تعلیم، صحت جیسی بنیادی حق سے بھی محروم کررکھا ہے۔ ان کو خود سے فیصلہ کرنے کا حق بھی نہیں دیا جاتا ہے۔
آج کے زمانے میں اب بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ وقت بدل گیا ہے تو کیا ہوا عورت کے حقوق اب بھی ویسے ہی ہیں۔ آج بھی عورت کو صحت، تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی میسر نہیں۔اور جن علاقوں میں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات میسر ہیں وہاں ان کو مساوات اور ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
منفی مساوات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان ان ملکوں میں دوسرے نمبر پر آتا ہے اور اس لحاظ سے پیچھے بھی ہے۔
آج بھی خواتین اپنے اوپر تشدد صرف اور صرف اس لئے برداشت کررہی ہیں کہ ان پر کوئی اور تشدد نہ ہوجائے وہ سمجھتی کہ اگر انہوں نے آواز اٹھائی تو لوگ ان پر انگلیاں اٹھائیں گے اور ان کو الزام تراشی کا شکار بنا دیں گے۔ ان کے گھر والے بھی ان کا ساتھ نہیں دیں گے اور یوں ہرحال میں قربانی دینے،برداشت کرنے کے اور مصلحت سے کام لینے کے لئے بھی عورت کو ہی کہا جائے گا۔ ان کو ہر وقت اس بات کا ڈر کہ کہیں طلاق ہوگئی تو لوگ اور یہ معاشرہ کیا کہے گا لوگ کیا سوچیں گے معاشرے میں اور مزید بدنامی ہوگی۔ ہر حال میں عورت کو ہی تحمل اور برداشت سے کام لینا ہوگا اور اس بات کا دباؤ اس کو گھر والے اور رشتہ دار بھی دیتے ہیں کہ چاہیے کچھ بھی ہو اپنا گھر تم کو ہی بچانا ہے۔ آخر کیوں اور کب تک؟ کیا یہ سب اگر کسی مرد کے ساتھ ہو تو کیا اس کو بھی اسی طرح لوگ سمجھائیں گے،یہی کہیں گے کہ اپنی انا کو مارو،اور رشتہ بچاو۔ شاید نہیں اور کبھی نہیں کیونکہ ان کی نظر میں عورت ایک بہت بے معنی سی چیز ہے اور اس لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔

مرد عورت پر ہاتھ اٹھائے، گالیاں دے،مارپیٹ کرے پھر بھی عورت کو یہ رشتہ ختم نہیں کرنے کا کہا جاتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ مالی لحاظ سے شوہر کی ہی محتاج ہوتی ہے۔ اس کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنے اخراجات خود برداشت نہیں کرسکتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین اس کی تعلیم پر توجہ ہی نہیں دیتے اور ان کی تعلیم پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ وہ ان کو گھر سے باہر بھیجنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ اور یہی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے جو عورت مالی لحاظ سے اپنے گھر والوں کے سامنے کمزور اور ان کی محتاج بن کر رہ جاتی ہے۔
اگر عورت کو بچپن میں ہی اس کے حقوق دیے جائیں تو وہ ایسے کسی بھی قسم حالات اور ناانصافی کا سامنا نہیں کرے۔
آج معاشرے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ عورت کو صحت تعلیم روزگار جیسے حقوق دیے جائیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بیٹیوں کی تربیت ایسے کریں ان کو اچھی تعلیم دلوائیں اور ان کو سارے حقوق دیں۔ کسی بھی کے ساتھ محض صنف کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں رکھا جائے کیونکہ کچھ بھی ہو سب سے پہلے وہ انسان ہے۔ عورت کی قابلیت کو اس بات سے نہیں جانچیں کہ وہ صرف گول روٹی ہی بنا سکتی ہے بلکہ اس معاشرے میں رہتے ہوئے اس کا حصہ ہوتے ہوئے وہ ہر کام جو مرد کرسکتا ہے وہ عورت بھی کر سکتی ہے اور اپنے گھر والوں کا سر فخر سے بلند بھی کرسکتی ہے۔ اس لیے عورت کی قدر کریں اور اس کا خیال رکھیں۔

تحریر: ایمن رافع

Leave a reply