حضرت ناقد سے تخیلاتی ملاقات کا احوال !!! تحریر : نعمان علی ہاشم

0
52

ناقد
اس نے میرے بالکل درست شعر کا وزن بگاڑ کر بولا کہ اگر یوں لکھتے تو ٹھیک تھا.
میں نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے سوچا شاید کے یہ عروض کا ماہر ہو، بمشکل سوال کیا کہ جناب آپ اس کی بحر کے بارے میں بتا سکتے ہیں.
موصوف فوراً بولے. بحر کا مجھے کچھ پتا نہیں. میں تو ناقد ہوں. اور کیڑے نکالنا میرا کام ہے. قریب تھا کہ اگر وہ قریب ہوتے تو اپنے کمزور ہاتھوں کو جنبش دے کہ ان کے گال کو گلاب کر دیتا. مگر بھلا ہو اس واٹس ایپ کا…
میرے لیے ناقد کی یہ تعریف بالکل نئی تھی. دوستوں ویسے تو ناقد کہتے ہی تنقید کرنے والے کو ہیں. مگر تنقید سے ہماری اکثر مراد یہی ہوتی ہے کہ نقائص کو واضح کرنا. مگر یہ کیا کہ ہر بات پر تنقید…. ایک دن یونہی دل چاہا کہ تخیل میں ایسے ہی ایک ناقد سے گپ شپ کروں.
اور وہی مکالمہ آپکے سامنے پیش کیے دیتا ہوں
.
میں: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.
ناقد: وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ.
میں: جناب آپ کیسے ہیں؟؟
ناقد: بس جی گزر رہی ہے گزار رہے ہیں. حالات مندے ہیں. اخراجات زیادہ ہیں. ہلکا پھلکا گھٹنوں میں درد رہتا ہے. بیوی ناراض ہے، بچے وقت نہیں دیتے. حکومت کسی اقدام میں سنجیدہ نہیں، غریب کی تو کوئی زندگی نہیں.
.
اتنے میں ہی کھانے کا وقت ہوا.. موصوف نے طرح طرح کے بازاری کھانے آڈر دیے. جو مزکورہ بالا تمام اعتراضات کا بذات خود رد تھے.
میں نے استفسار کیا کہ جناب: مالی حالات مندے، اخراجات زیادہ، یورک ایسڈ بڑھا ہوا، بیوی ناراض، غریب بے حال، اور یہ کھانا….. ارے جناب میں ناقد ہوں. اگر میں سب اچھا کی گردان رٹ لوں گا تو معاملات کیسے سیدھے ہونگے. آخر غریب کا بھی تو کسی نے سوچنا ہے.
میں چکرا کر: مگر یہ کھانا آپکی صحت اور جیب کے لیے بہت مہنگا ثابت ہو سکتا ہے؟
آو جی چپ کرو ناقد میں ہوں. سدھارنے کا کام حکومتوں کا ہے. آپ کھانا شروع کریں اور اگلا سوال کریں.
.
میں: آپ کب سے ناقد ہیں؟؟
ناقد: میرا خیال ہے ہر انسان پیدائشی طور پر ناقد ہوتا ہے. شکم مادر میں میرے ہاتھ پیر آزاد تھے مگر میری ناف سے بندھی ایک زنجیر نے مجھے قید کر رکھا تھا. میں نے علم بغاوت بلند کیا. میرے بس میں ہوتا تو اس زنجیر کو اپنےہاتھ سے توڑتا اور اس غلامی سے نجات حاصل کرتا. مگر میرے پاس صرف ایک ہی آپشن تھا تنقید، سو میں نے مزاحمتی عمل جاری رکھا اور کچھ عرصہ بعد اس زنجیر سے رہائی پائی. مگر اب دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ میں آزاد ہونے کے بعد کسی کے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا. جو کہ میری فطری غیرت کو گوارہ نہ تھا. مگر میرے بس میں کیا تھا. میں نے پھر اپنا ازلی حق تنقید استعمال کیا. اور رونا شروع کر دیا، آپ سمجھ رہے ہیں نا کہ میں جو کہہ رہا ہوں،؟
ناقد کی باتوں میں غرق تھا جب اس نے ہاتھ کا اشارہ دے کر مجھے ہلایا، اور کہا کہ آپ کھانا نہیں کھا رہے، میں نے نوالہ توڑا اور کہا کہ یعنی آپ نے اپنا مدعا سمجھا دیا. کہ آپ پیدائشی طور پر ناقد ہیں.
جی جی بالکل ناقد نے جواب دیا…
میں نے اگلا سوال اس لیے جلدی پوچھ لیا کہ مزید مثالیں سننے کی سکت نہیں تھی.
میں: تنقید کیوں ضروری ہے؟
ناقد: آپ نے میرا پچھلا جواب پورا نہیں ہونے دیا. دیکھیں اب اس کا جواب بھی اسی میں دیے دیتا ہوں. یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ یہ سوچے کہ اس کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے. اب جب مجھے ختنے کروانے لے کر گئے تو پہلی دفعہ یہ سوال تب پیش آیا. آپ ہی بتائیں تب میں سوال پوچھنے کا مجاز نہیں تھا کہ کیا میرا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے؟ . محفوظ ہاتھوں کی تلاش میں ہر ہاتھ پر تنقید کی جائے گی تاکہ سب سے محفوظ ہاتھوں تک پہنچا جا سکے..
میں نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا. اور دل میں سوچا یہ موصوف نائی یا سرجن کے بجائے درزی یا موچی سے ختنے کروانے چلیں جائیں گے. کیونکہ ان کا اعتراض انہی لوگوں پر ہوتا ہے جو اس کام کے ماہر ہوتے ہیں. گوکہ خود اس کام سے مکمل نابلد ہی کیوں نا ہوں.
خیر اسی سوچ میں اگلا سوال داغا
میں: پاکستان کے موجودہ حالات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
ناقد: دیکھو عزیز یہاں سب کچھ غلط ہو رہا ہے. تعلیم صحت، انصاف، تمام نظام خراب ہیں. داخلہ و خارجہ امور کا بیڑہ غرق ہے. معیشت زوال کا شکار ہے، ڈالر آسمان کو ہاتھ لگانے کی کوشش میں ہے. اللہ غارت کرے ہمارے حکمرانوں کو انہیں مثال کی سنگینی کا ہی علم نہیں. یہ بس تقریریں کرتے ہیں، یہ سب امریکہ کے غلام ہیں. کیسی آزادی کاہے کی آزادی، فوج یہاں جمہوریت چلنے نہیں دیتی، جمہوریت یہاں ڈلیور نہیں کرتی، پولیس کرپشن کی ماری ہے. فوج ڈالروں پر پلتی ہے. 80٪ بجٹ فوج کو چلا جاتا ہے. گندگی ہی گندگی ہے. کوڑا اٹھانے والا کوئی نہیں. خالص چیز نہیں ملتی، ملاوٹ ہی ملاوٹ ہے. عورتیں بے حجاب ہیں، مرد بے رقاب ہیں..
وہ ایک تلاطم میں بولے جا رہے تھے کہ میں نے زبردستی روک کر سوال پوچھا
میں : جناب ان سب کا حل کیا ہے؟
ناقد: حل میں نے نہیں دینا حکومت نے دینا ہے. میں ناقد ہوں میرا کام تنقید کرنا ہے. اچھے سے اچھے کام میں بھی کیڑے نکالنا ہے. تاکہ حکومتیں اپنی اصلاح کر سکیں.
میرے ذہن میں ملاقات کا ابتدائی منظر چل رہا تھا. اور جان چکا تھا موصوف کا مسئلہ کیا ہے. سو میں نے اگلا سوال کر لیا.
میں: کیا یہ بات اچھی نہیں کہ ہم ناقد کے بجائے مصلح بن جائیں. تنقید کے بجائے اصلاح کرنا شروع کر دیں؟
ناقد: وہ کیسے جناب یہ کیسے ممکن ہے. یہ کام حکومتوں کے ہیں، ہم کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمیں کون کرنے دے گا؟ آپ ہی بتا دیں؟
.
میں: دیکھیں اللہ نے انسان کو ناقد نہیں بنایا تنقید صرف وہاں کی جاتی ہے جہاں اس کے علاوہ کچھ نہ ہو سکتا ہو. ہر مسئلے کا حل تنقید نہیں. کچھ ہماری زمہ داریاں بھی ہیں. آپ سے ہی شروع کرتے ہیں. آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں اپنا ڈائٹ پلان لیں. آپکی صحت بھی ٹھیک ہوگی اور جیب بھی زیر عتاب نہیں آیا کرے گی. جب میں پیسے اور جوڑوں میں دم ہوگا تو آپ کیسی کے محتاج نہیں ہونگے. ورزش کو اپنا معمول بنائیں گے تو طبیعت کی خشکی ختم ہوگی. یہ سب کو عوامل ہیں جن کے لیے حکومت کی کسی پالیسی کی ضرورت نہیں. سرکار کوئی اقدامات بھی نہ کرے پھر بھی آپ یہ سب کر سکتے ہیں.
موبائل سے سندھ کے ایک ماڈل ویلیج کی ویڈیو دکھائی اور بتایا کہ یہاں سندھ میں انسانیت پس رہی، علاج، تعلیم، انصاف ہر شے ناپید ہے. مگر اس گاؤں کو دیکھ کر آپ کو یقین آ جائے گا کہ آپ غلط سوچتے ہیں تنقید کسی مسئلے کا حل نہیں.، دیکھیں گلیاں صاف ہیں.، سکول، مدرسہ، مسجد بہترین ہے. پر امن لوگ ہیں. بیماریاں کم ہیں. یہاں بھی سندھ کے انہی وڈیروں کی حکومت ہے. مگر وہ خوشحال ہیں. وجہ جانتے ہیں؟ وجہ بس یہی ہے کہ انھوں نے تنقید کو اپنا بنیادی حق سمجھ پر اس پر اکتفا نہیں کیا. چند دوستوں نے مل کر انیشیٹو لیا. اور سکون سے زندگی بسر کر رہے ہیں. یہ ہے تنقید اور اصلاح کا فرق.
مزید یہ عرض کر دوں کہ تنقید کوئی فرض چیز نہیں. اصلاح ہم پر لازم ہے. اپنے معاملات کی اپنے گرد و پیش کے معاملات کی. یونہی معاشروں میں امن و سکون، صحت و سلامتی آتی ہے. صرف تنقید سے کچھ نہیں ہوتا.
اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور بات کرتا کھانا ختم ہو چکا ہے. اور ہم نے سلام کیا اور اپنی راہ لے لی.
والسلام

نعمان علی ہاشم

Leave a reply