رحمت للعالمین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تحریر: خوشنود

0
95

       جب سے یہ کائنات ظہور میں آئی ہے اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی، اپنے بندوں کی اصلاح اور انہیں سیدھی راہ پر چلانے کے لئے مختلف ادوار میں کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو بھیجا۔ نبوت کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر آکے ختم ہوا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللّٰہ عزوجل کے تمام انبیاء مرسلین رحمت تھے مگر رحمت للعالمین نہیں تھے۔ اُنکی نبوت اپنی قوم، اپنے دور اور اپنے زمانے تک محدود تھی جبکہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت و شفقت ہر عہد، ہر زمانے، ہر قوم اور تمام جہانوں کے لئے ہے۔ سرکارِ دو عالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو اللّٰہ تعالیٰ نے رحمت للعالمین بنا کر بھیجا۔ جہاں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا تعارف رب العالمین کروایا ہے وہاں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت للعالمین کے لقب سے نوازا۔یہ لقب اور شرف ایسا ہے جو کسی اور کے لئے استعمال نہیں کیا گیا۔

قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: 

وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین

"اور (اے پیغمبر) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔”

اِس آیتِ کریمہ پر توجہ کی جائے تو معلوم ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف عرب کے لئے رحمت بنا کر نہیں بھیجا گیا تھا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم صرف اُمتِ مسلمہ کے لئے رحمت نہیں، تمام نبیوں، رسولوں اور فرشتوں کے لئے بھی رحمت ہیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تمام چرند پرند، حیوانات و نباتات کے لئے بھی سراپا رحمت بن کر آئے۔ غرض عالم میں جتنی چیزیں ہیں سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سب کے لئے رحمت ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ جو تمام عالموں کا مالک و مختار ہے اُس نے اِن عالموں کے لئے رحمت کا اہتمام اپنے آخری نبی محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں کر دیا۔ 

چھٹی صدی عیسوی کا زمانہ جو بعثت نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل کا زمانہ ہے اُس زمانے میں نہ صرف سر زمین عرب بلکہ پوری دنیا جہالت و گمراہی کا شکار تھی۔ پورا معاشرہ پستیوں کی گہری دلدل میں ڈوبا ہوا تھا۔ ذات پات کا ایسا خوفناک نظام رائج تھا کہ انسانیت پناہ مانگتی تھی۔

حیوان تو حیوان آپس میں انسانوں کے ساتھ بھی جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ انسان انسان کا دشمن اور بھائی بھائی کے لہو کا پیاسا تھا۔ یتیموں کا مال ہڑپ کر لیا جاتا تھا اور بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ کفر و شرک، ظلم و بربریت، قتل و غارت، چوری، ڈاکہ زنی، شراب نوشی نیز ہر قسم کا گناہ عام تھا۔ ان سب حالات اور گھٹا ٹوپ اندھیرے کو دور کرنے کے لئے عرب کی سر زمین سے وہ آفتابِ ہدایت طلوع ہو جسکی چکا چوند کر دینے والی روشنی نے جہالت کی تمام تاریکیوں کو ختم کر دیا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی۔ جس معاشرے میں غلام اور عورت کی کوئی عزت نہیں تھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس معاشرے میں غلاموں کو بھی عزت دلوائی عورت کو بحیثیت ماں، بہن، بیٹی، بیوی ہر روپ میں بلند مقام بخشا۔ اللّٰہ تعالیٰ کے تمام احکامات کی صرف تبلیغ نہیں کی بلکہ اپنی زندگی میں عملی طور پہ کر کے بھی دکھایا۔ وہ معاشرہ جو اپنے افعال و اعمال اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے حیوانوں سے بھی بدتر تھا آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہو کر فرشتوں سے بھی افضل گردانا گیا۔ الغرض تاریخِ انسانی میں حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ایک ایسا اعلیٰ و ارفع مقام رکھتی ہے جسکی کوئی مثال نہیں۔ 

وہ دانائے سبل ختمُ الرسل مولائے کُل جس نے 

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا 

نگاہِ عشق ومستی میں وہی اول، وہی آخر

وہی قرآں،وہی فرقان، وہی یٰسین، وہی طہٰ

آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم محسنِ انسانیت ہیں، انسان کامل ہیں اور ہر لحاظ سے قابلِ تقلید ہیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی قیامت تک کے انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ بطور مسلمان ہمیں ہر وقت اللّٰہ کریم کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اُس نے ہمیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمتی بنایا۔ جو شخص دنیا میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے گا اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و پیروی کرے گا اُسے دونوں جہانوں میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے حصہ ملے گا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم سیرتِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں تا کہ ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔

    @_Khushnood_

Leave a reply