19 نومبر تسنیمؔ فاروقی بھوپالی کا جنم دن

0
36

19 ؍نومبر 1915ء کو ابراہیم پورہ، بھوپال میں منشی عنایت حسین فاروقی کے ہاں پیدا ہونے والے تسنیم فاروقی بھوپالی کا اصل نام سلطان احمد ہے ان کا پہلا تخلص ” تنہائی ” تھا بعد میں تسنیم کر لیا۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی۔ مدرسہ عبیدیہ دینیہ میں عربی و فارسی کی تکمیل ہوئی۔ بھوپال ریاست کے مشہور قاری محمد بختیار صاحب سے علم تجوید حاصل کی۔ علوم مشرقیہ الہ آبادی یونیورسٹی سے عالم کا امتحان پاس کیا۔ 1931ء میں جامعہ احمدیہ سے حدیث، فلسفہ، تفسیر، منطق، حمد اور علم کلام کے مضامین امتیازی نمبرات حاصل کرکے فاضل درس نظامی کی تکمیل ہوئی۔ بھوپال میں آصفیہ طبیہ کالج کے طالب علم بھی رہے۔

تسنیمؔ صاحب کے دادا محمد ابو علی قصبہ گوپا مئو، ضلع ہردوئی یوپی سے 1857ء میں ترک سکونت کرکے ریاست بھوپال آئے تھے۔ ابتدائی عمر میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد تسنیمؔ صاحب نے سرکاری ملازمت اختیار کی۔ کسٹم، پولس اور اکاؤنٹس کے مختلف محکمات میں ملازم رہے۔ طالب علمی کے زمانے میں استاد محترم خلیل ﷲ صاحب صدیقی نے شعر گوئی کی طرف توجہ دلائی۔

تسنیمؔ کو دو گولڈ میڈل ایوارڈ ملے تھے۔ پہلا 1953ء میں گورکھپوری میں، اور دوسرا گولڈ میڈل فروری 1973ء کو ایوان صدر منزل بھوپال میں بسلسلہ یومِ جمہوریہ سلور جبلی تقریب میں عزیز قریشی صاحب کے ہاتھوں عطا کیا گیا۔
تسنیمؔ فاروقی 29؍نومبر 1982ء کو نور محل مسجد بھوپال میں انتقال کر گئے۔
بحوالہ موج تسنیم

تسنیمؔ فاروقی بھوپالی کی شاعری سے انتخاب

صدیوں لہو سے دل کی حکایت لکھی گئی
میری وفا گئی نہ تری بے رخی گئی

دل دے کے اس کو چھوٹ گئے اپنے آپ سے
اس سے چھٹے تو ہاتھ سے دنیا چلی گئی

یاد آئی اپنی خانہ خرابی بہت مجھے
دیوار جب بھی شہر میں کوئی چنی گئی

اس کو بھی چھیڑ چھاڑ کا انداز آ گیا
دیکھا مجھے تو جان کے انگڑائی لی گئی

ناخن کے چاند زلف کے بادل لبوں کے پھول
کس اہتمام سے تجھے تشکیل دی گئی

لمحے کو زندگی کے لیے کم نہ جانیے
لمحہ گزر گیا تو سمجھیے صدی گئی

تم کیا پیو گے چوم کے رکھ دو لبوں سے جام
تسنیمؔ یہ شراب ہے کتنوں کو پی گئی

عکس زنجیر پہ جاں دینے کے پہلو دوں گا
کچھ سزا تجھ کو بھی اے شاہد گیسو دوں گا

اپنے گھر سے تجھے جانے نہیں دوں گا خالی
مجھ کو ہیرے نہیں حاصل ہیں تو جگنو دوں گا

زندگی تجھ سے یہ سمجھوتہ کیا ہے میں نے
بیڑیاں تو مجھے دے میں تجھے گھنگھرو دوں گا

مجھ کو دنیا کی تجارت میں یہی ہاتھ آیا
میں نے آنسو ہی کمائے تجھے آنسو دوں گا

میں ہوں دریا مجھے خدمت میں لگے رہنا ہے
میں اگر سوکھ بھی جاؤں گا تو بالو دوں گا

میں تو اک پیڑ ہوں چندن کا مجھے جسم نہ جان
تو مجھے قتل بھی کر دے گا تو خوشبو دوں گا

پہلے کچھ بانٹ اصولوں کے بنا لو تسنیمؔ
جس میں کردار تلیں میں وہ ترازو دوں گا

دل وہ جس کے آئینے میں عکس آئندہ رہا
تیرہ دامن منزلوں میں بھی درخشندہ رہا

آہ آوارہ کی صورت روح گل پیاسی رہی
پھول خوشبو بن کے شبنم کے لئے زندہ رہا

ہائے وہ اک مفلس و بے خانما جو عمر بھر
سایۂ دیوار اہل زر کا باشندہ رہا

کون ہم سے چھین سکتا ہے محبت کا مزاج
پتھروں میں رہ کے بھی یہ نقش تابندہ رہا

زندگی سے یوں تو سمجھوتہ کیا سب نے مگر
جس نے جینے کی قسم کھائی وہی زندہ رہا

کائنات نور و ظلمت ہے مرا اپنا وجود
روشنی میں بھی مرا سایہ نمائندہ رہا

جانے کیا کیا کہہ گیا اس سے مرا حسن سکوت
دیر تک وہ میرے چپ رہنے پہ شرمندہ رہا

حادثے تو اور بھی تسنیمؔ سے الجھے مگر
اک ترا غم تھا جو ہر عالم میں پایندہ رہا

Leave a reply