1965 کی جنگ کے حالات و واقعات اور پاکستان کی فتوحات تحریر: احسان الحق

متحدہ ہندوستان یا اکھنڈ بھارت کے ناپاک عزائم لئے بھارتی فوج اندھیرے میں چوروں کی طرح مغربی پاکستان فتح کرنے واہگہ بارڈر کے راستے لاہور میں گھسنا چاہتی تھی. بھارتی کمانڈر انچیف جنرل چودھری نے اپنے ساتھیوں کو جمخانہ میں محفل شراب و شباب منانے کی نوید بھی سنا دی. بھارتیوں کا خیال تھا کہ ہم 72 گھنٹوں میں سارے مغربی پاکستان پر قبضہ کر لیں گے. مگر ابتداء سے ہی بھارتی فوج کی ذلت آمیز شکست شروع ہو گئی جب ستلج رینجرز، گشتی پولیس اور چرواہوں نے 60 ہزار بھارتی فوجیوں کو گھنٹوں پیش قدمی سے روکے رکھا.

ستمبر 1965 میں پاکستانی فوج نے بہادری اور جوانمردی کے ناقابل فراموش اور ناقابل یقین کارنامے سرانجام دیتے ہوئے دشمن فوج جو کہ تعداد اور وسائل کے لحاظ سے پاکستان سے بڑی فوج تھی کو عبرت ناک شکست دی. اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قرارداد کی مداخلت سے 23 ستمبر 1965 کو جنگ بندی کا اعلان کیا گیا.

کانگریس اور ہندو برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان کے خلاف تھے. جب ان کی کوششوں اور سازشوں کے باوجود پاکستان کا قیام عمل میں آ چکا تھا تو انہوں نے ہر طریقے سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی. آگے بڑھنے سے پہلے قیام پاکستان کے دوران ہندوستانی اور کانگریسی راہنما پاکستان کے خلاف اپنے مکرو عزائم کا اظہار کرتے رہے.

17 مئی 1947 لندن کے اخبار اکانومسٹ نے لکھا

"کانگریس برصغیر کی تقسیم کو اس امید پر تسلیم کرے گی کہ یہ تقسیم بعد ازاں برصغیر کو اتحاد کی طرف لے جائے گی. کانگریس اب بھی برصغیر کی تقسیم کے خلاف ہے”

3 جولائی 1947 کو ڈاکٹر شیام پرشاد مکھرجی نے کہا

"ہمارا نصب العین یہ ہونا چاہئے کہ پاکستان کو دوبارہ ہندوستان میں ضم کر لینا چاہئے اور یہ ہر قیمت پر ہو کر رہے گا”

(دیوان چمن لعل 3 جولائی 1947)

"اتحاد کا خواب دیکھنے والوں کو رنج پہنچا ہے، ہمیں امید ہے جلد یا بدیر دونوں ملکوں کا اتحاد ہو جائے گا” سردار پٹیل

امرت بازار امر پتریکا. 16 اگست 1947

15 اگست 1947 کو کلکتہ میں کانگریس کے صدر اچاریہ کا کہنا تھا کہ

"کانگریس اور قوم متحدہ ہندوستان کے دعوے سے دستبردار نہیں ہوئے”

نیشنل ہیرالڈ لکھنو کے 6 نومبر 1950 کے مطابق وی جی دیش پانڈے نے کہا کہ

"ہمارا مقصد اکھنڈ بھارت میں ہندو راج قائم کرنا ہے”

6 ستمبر کو جب اہل لاہور سو رہے تھے، چوروں کی طرح اندھیرے میں بھارتی فوج نے لاہور پر حملے کرنے کے لئے پاکستان میں داخل ہوئی اور واہگہ پر ایک فوجی چوکی پر قبضہ کر لیا. اس وقت گشتی پولیس، ستلج رینجرز اور ایک سرحدی دستہ معمول کی نگرانی اور گشت پر مامور تھا. 60 ہزار بھارتی فوجیوں کو ان مختصر نیم فوجی دستوں نے گھنٹوں تگنی کا ناچ نچوایا. بھارت کا خیال تھا کہ چوری چپکے لاہور پر قبضہ کر لے گا.

بھارتی فوج کا خیال تھا کہ پاکستان اچانک اور چوری حملے کی تاب نہ لا سکے گا اور یوں مغربی پاکستان کو 72 گھنٹوں میں فتح کر لیں گے مگر پاک فضائیہ نے ان کے سارے ناپاک عزائم چند گھنٹوں میں خاک میں ملا دیئے. بھارتی کمانڈر انچیف جنرل چودھری نے اپنے سپاہیوں کو لاہور جم خانہ میں ناشتہ کرنے اور محفل رقص برپا کرنے کی نوید بھی سنا دی تھی.

صدر پاکستان جنرل ایوب خان نے ولولہ انگیز تقریر کرتے ہوئے قوم اور جوانوں کے خون کو گرمایا اور کہا کہ”

10 کروڑ عوام تیار ہو جائے، جس بلا نے تمہارے سروں پر سایہ ڈالا ہے اس کی موت اور تباہی یقینی ہے”

پاک جوانوں کے پہلے ہی وار میں 800 بھارتی ہلاک ہوئے اور 10 ٹینک اور 50 گاڑیوں پر پاک فوج نے قبضہ کر لیا. پہلے ہی دن پاک شاہینوں نے 22 بھارتی فضائیہ کے طیاروں کو مار گرایا. شدید خطرے کے باوجود پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر انتہائی نچلی پرواز کرتے ہوئے 13 طیاروں کو تباہ کیا گیا. اسی روز سکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی اور فلائیٹ یونس حسن نے ہلواڑہ ہوائی اڈے پر زبردست حملہ کرتے ہوئے 5 طیاروں کو تباہ کیا مگر یہ دونوں شیر دل شاہین حملے میں شہید ہو گئے.

1965 کی جنگ کے پہلے ہی روز بھارت بے تحاشا جانی، مالی اور فضائیہ کا نقصان کروا چکا تھا. بھارت کے تمام ناپاک عزائم خاک میں مل چکے تھے. اقوام متحدہ میں بھارتی لابی شروع سے ہی موجود اور مضبوط تھی. اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اوتھان نے ہنگامی دورہ کرتے ہوئے 7 ستمبر 1965 کو راولپنڈی میں جنرل ایوب خان سے ملاقات کی اور جنگ بندی کے لئے قائل کرنے کی کوشش کی. جناب صدر نے اوتھان کو مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کا گہرائی، سختی اور تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے بھارت کو ذمہ دار قرار دیا.

7 ستمبر کو انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو ایوان صدر جکارتہ میں کہا کہ انڈونیشیائی حکومت اور عوام پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں. انڈونیشی طلبہ نے جکارتہ میں بھارتی سفارتخانے کے باہر بھرپور احتجاج کیا. صدر سوئکارنو نے پاکستان اور کشمیر پر 24 گھنٹوں میں کابینہ کے 3 ہنگامی اجلاس بلائے.

بھارتی فضائیہ نے مغربی پاکستان کے پانچ شہروں، چاٹگام، جیسور، کریم ٹولا، لال منیر ہاٹ اور رنگ پور اور مغربی پاکستان کے 3 شہروں کراچی، سرگودھا اور راولپنڈی پر بمباری کی. مشرقی پاکستان کی فضائیہ نے بھی دشمن کو ذلیل کرتے ہوئے مجموعی طور پر اس کے 15 طیاروں کو تباہ کر دیا. 7 ستمبر کو مجموعی طور پر 31 بھارتی فضائیہ کے طیاروں کو تباہ کیا گیا یوں 1 ستمبر سے 7 ستمبر کے دوران بھارتی فضائیہ کے تباہ ہونے والے طیاروں کی تعداد 60 ہو گئی تھی. اسی روز سرگودھا میں بھارتیوں نے پاک فضائیہ کے اڈوں پر ناکام حملے کی کوشش میں اپنا طیارہ بھی تباہ کروا بیٹھے.

7 ستمبر 1965 کو شام 6 بجکر 5 منٹ پر دشمن کے 4 ایف6 ہنٹر اور ایک ایف104 طیارے سرگودھا کو نشانہ بنانے کے لئے آئے. پاکستان کے ایف86 طیاروں کی فارمیشن کے قائد سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم تھے. ایم ایم عالم کا پہلا نشانہ خطا گیا مگر فوراً ہی دوسرے نشانے سے ایک ہنٹر طیارے کو مار گرایا اور ایم ایم عالم نے اگلا وار کرتے ہوئے چند لمحات میں دشمن کے 4 ہنٹر طیاروں کو تباہ کر دیا.

21 ستمبر کو بھارتی وزیر اعظم نے جنگ بندی کے لئے کہا کہ اگر پاکستان جنگ بندی کے لئے تیار ہو تو ہم بھی جنگ بندی کے لئے تیار ہیں.

 

22 ستمبر کو سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں پاکستان کو جنگ بندی کے لئے راضی کیا گیا. سلامتی کونسل نے جنگ بندی کے لئے ایک قرارداد پیش کی. وزیر خارجہ ذوالفقار علی نے اقوام متحدہ سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دی. کہا کہ 18 سالوں سے تم لوگوں نے کشمیر اور مسئلہ کشمیر کو کھلونا سمجھا ہوا ہے.

سلامتی کونسل کی قرارداد کی روشنی میں صدر ایوب خان نے 22 ستمبر کو اعلان کیا کہ 23 ستمبر صبح 3 بجے تک جنگ بندی ہو جائے گی اور اپنے جوانوں کو کہا کہ اپنی اپنی جگہوں پر ڈٹے رہیں. اس وقت تک گولی نہ چلائیں جب تک دشمن پہل نہ کرے.

بھارت کے خلاف جنگ کی فتح پر 24 ستمبر کو ملک بھر میں یوم تشکر کے طور پر منایا گیا. ڈھاکہ، راولپنڈی، لاہور اور کراچی سمیت تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں نماز شکرانہ ادا کی گئی.

غیر جانبدارانہ ذرائع اور اعداد وشمار کے مطابق بھارت کو فوجیوں کی تعداد، جنگی طیاروں، ٹینکرز کے علاوہ تمام جنگی سازو سامان میں برتری حاصل تھی.

بھارتی فوج 700،000

جنگی طیارے 700 سے زیادہ

ٹینکرز 720 

جبکہ پاکستان کی نمبرز کافی کم تھے

فوج 260،000

طیارے 280

ٹینکرز 756

جنگ کے اختتام پر بھارتی فوج کے 8200 فوجی ہلاک، 500 ٹینکس تباہ یا پاکستان کے قبضہ میں آ گئے. 110 سے 113 طیارے مارے گئے اور جبکہ پاکستان کے محض 19 طیاروں کا نقصان ہوا.

@mian_ihsaan

Comments are closed.