2035ءتک چین کے جوہری ہتھیارتین گُنا بڑھ کرقریباً 1500 ہوجائیں گے. رپورٹ

0
46

2035ءتک چین کے جوہری ہتھیارتین گُنا بڑھ کرقریباً 1500 ہوجائیں گے. رپورٹ
امریکا کے محکمہ دفاع (پینٹاگان) نے منگل کو جاری کردہ اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ چین اور اس کی فوج نے گذشتہ سال کے دوران میں مشرقِ اوسط کے ممالک کے ساتھ رابطے کی کوششوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ مشرق اوسط کے تعلق سے پینٹاگان نے دو’’اہم تبدیلیوں‘‘ پرروشنی ڈالی ہے جو چین نے 2021 میں کی تھیں۔وہ یہ کہ وہ ’’بیلٹ روڈ اقدام‘‘ کے بارے میں کس طرح آگے بڑھا ہے۔مشرقِ اوسط کے ممالک میں صحت عامہ، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور سبز توانائی کے مواقع کو ترجیح دینے کے لیے چین نے خاص طور پر عراق اور دوسرے ممالک کے ساتھ روابط کو بڑھانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔

بیجنگ نے اپنے ’’ہیلتھ سلک روڈ‘‘(صحت شاہراہ ریشم)اور’’ڈیجیٹل سلک روڈ‘‘(ڈیجٹل شاہراہ ریشم) اقدامات کااضافہ کرتے ہوئے شریک ممالک کو کووِڈ 19کی ویکسینیں، ذاتی تحفظ کا سامان (پی پی ای) اوروبائی مرض سے نمٹنے کے لیے طبی امدادمہیا کی۔اس سے چین کو اپنی طبی مصنوعات کا بین الاقوامی مارکیٹ میں شیئربڑھانے،عالمی صحت عامہ کے رہنما کے طور پرکردارادا کرنے کے لیے اپنی بولی کومضبوط بنانے اور بیلٹ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے نئے منصوبوں کی ضرورت کی نشان دہی کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔

پینٹاگان کے مطابق:’’ڈیجیٹل سلک روڈ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے چین اپنی ٹیکنالوجی دوسرے ممالک تک پہنچاتا ہے، جس سے وہ اپنی ٹیکنالوجی کے معیارات کوبہتربنانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ اگلی نسل کی ٹیکنالوجی کے لیے بھی عالمی معیارقائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔ ان میں سے کچھ طریقوں میں 5 جی نیٹ ورکس ،زیر سمندر کیبلز اور ڈیٹا سینٹرز میں چینی سرمایہ کاری شامل ہے۔اس میں سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم ، مصنوعی ذہانت اور گھریلو استعمال اور برآمد کے لیے کوانٹم کمپیوٹنگ بھی شامل ہے۔

پینٹاگان نے کہا:’’جیسا کہ بیجنگ کے اقتصادی مفادات براعظم افریقا، لاطینی امریکا، وسط ایشیا اور مشرق اوسط جیسے خطوں میں پھیل رہے ہیں، ہم عالمی سطح پر پاورپروجیکشن آپریشنز کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے کی توقع کرتے ہیں‘‘۔ رپورٹ کے مطابق چین دنیا میں اسلحہ مہیا کرنے والاپانچواں بڑا ملک ہے۔وہ سعودی عرب، سربیا، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، قزاقستان، عراق اور پاکستان کو ڈرونز، آبدوزیں، بحری جہاز،زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سسٹم اور لڑاکا طیاروں سمیت روایتی ہتھیار فروخت کرتا ہے۔

نیز’’چین اپنے بیرون ملک لاجسٹکس اوراڈوں کے انفراسٹرکچرکو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ فوج کو زیادہ سے زیادہ فاصلے پراپنی طاقت کوبروئے کارلانے اور برقرار رکھنے کی اجازت دے سکے‘‘۔ اس رپورٹ میں خبردارکیا گیا ہے کہ چین کا عالمی فوجی لاجسٹک نیٹ ورک امریکی فوجی کارروائیوں میں خلل اندازہو سکتا ہے کیونکہ بیجنگ کے عالمی فوجی مقاصدواہداف بھی نمایاں ہورہے ہیں۔چینی فوج کا جیبوتی میں پہلے ہی ایک سپورٹ بیس ہے اور وہ مشرق اوسط اور شمالی افریقا میں اضافی تنصیبات کی تعمیرپرغور اورمنصوبہ بندی کر رہی ہے۔ان کے علاوہ جن ممالک پر غور کیا جا رہا ہے ان میں متحدہ عرب امارات، پاکستان، کینیا، سیشلز اوردیگرممالک شامل ہیں۔

پینٹاگان کاکہنا ہے کہ چین اپنے توانائی کے ذرائع اورمہیّاکنندگان کو متنوع بنانے کی کوشش کررہا ہے لیکن افریقا اورمشرقِ اوسط سے درآمد کردہ تیل اور قدرتی گیس کی بھاری مقدارکے باوجود کم سے کم اگلے 15 برس تک تزویراتی سمندری راستوں کو محفوظ بنانا بیجنگ کی ترجیح ہوگی۔ محکمہ دفاع نے اس رپورٹ میں یہ بھی پیشین گوئی کی ہے کہ 2035ء تک چین کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد تین گُنا سے بڑھ جائے گی اور یہ تعداد 1500 تک ہوجائے گی۔

پینٹاگان نے بیجنگ کوامریکا کے لیے سب سے بڑا اوراہم چیلنج قراردیا ہے اور چین کی فوج سے متعلق سالانہ رپورٹ میں اس کی جوہری اور روایتی افواج دونوں میں بہتری اور ترقی کی نشان دہی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق’’محکمہ دفاع کا اندازہ ہے کہ (چین کے) آپریشنل جوہری ہتھیاروں کے ذخائر400 سے تجاوزکرچکے ہیں۔اگرچین نے اپنی جوہری توسیع کی یہی رفتار برقرار رکھی تو ، وہ ممکنہ طور پر 2035ء تک قریباً 1،500 وار ہیڈز کا ذخیرہ تیارکرلے گا‘‘۔

تاہم،اس کے باوجود یہ تعداد امریکا اور روس کے جوہری ہتھیاروں کے مقابلے میں بہت کم ہوگی کیونکہ ان دونوں ممالک میں سے ہرایک کے پاس اس وقت کئی ہزار جوہری ہتھیارہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اپنے بیلسٹک میزائلوں کو جدید بنانے کے لیے بھی کام کررہا ہے۔یہ میزائل جوہری ہتھیاروں کو ہدف تک لے جانے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔چین نے2021 کے دوران میں 135 میزائلوں کی آزمائش کی تھی یا تجربات کیے تھے اور یہ تعداد بھی ‘باقی دنیا کے مجموعی میزائلوں سے کہیں زیادہ’ ہے۔

اس کے علاوہ چین کی فضائیہ تیزی سے مغربی فضائی افواج کے ہم پلہ ہونے کے لیے پیش قدمی کر رہی ہے۔ایک سینیر دفاعی عہدہ دار نے امریکا کی اس رپورٹ کے اجراء سے قبل بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’چینی فضائیہ تمام محاذوں پربشمول سامانِ حرب ، آلات اور ہوابازوں کے ساتھ تیزی سے ترقی کررہی ہے‘‘۔ رپورٹ میں چین کی جانب سے بحرہنداور بحرالکاہل کے خطے میں اپنی فوج کو استعمال کرنے کے طریق کار کو ہدف بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نے ‘مزید زبردستی اور جارحانہ اقدامات کیے ہیں۔اس میں تائیوان کی طرف اشارہ ہے جہاں چین نے حالیہ مہینوں میں بعض فوجی مشقیں اور اقدامات کیے ہیں۔’

اگست میں امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تھا۔ان کے اس سفرنے چین کو مشتعل کردیا تھا۔اس نے 1990 کی دہائی کے بعد سے جزیرے کے آس پاس اپنی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ جارحانہ مشقوں کے ساتھ ردعمل کا اظہارکیا تھا۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے پیش رفت کررہے ہیں، لیکن سینیر دفاعی عہدہ دارنے کہا کہ اگرچہ تائیوان کے اردگرد چین کی فوجی سرگرمی میں کمی آئی ہے، لیکن یہ اب بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہے اور بیجنگ ’’اسپیکر پیلوسی کے دورے کے بعد تائیوان کے ارد گرد فوجی سرگرمی کی سطح کے لحاظ سے ایک نئے معمول پرعمل پیرا ہے‘‘۔ ایک اوراعلیٰ عہدہ دار کا اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ’’اگرچہ ہم ایک ممکنہ حملے کو نہیں دیکھتے ہیں لیکن یہ ظاہر ہے کہ تائیوان کے ارد گرد ڈرانے، دھمکانے اورزور زبردستی کی سرگرمی ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے‘‘۔

Leave a reply