پردیسوں کے دکھ تحریر : طاہر ظہور غوری

0
101

رزق کی تلاش میں وطن سے بے وطن ہونے والے پردیسی لوگوں کے بہت سے دکھ ہیں جہاں انہوں اپنوں سے جدائی کا سامنہ ہوتا ہے وہاں وہ اپنے پیاروں کی خوشی وغمی میں شرکت نہیں کر پاتے
اگر پچھلے دو سال کا جائزہ لیا جائے تو کورونا وبا کی وجہ سے پتہ چلتا ہے کہ مزدور اور اوسط درجے کا کمانے والے اک ہی صف میں نظر آتے ہیں کتنے ہی دوست ایسے ہیں جو یاں تو اپنے پیاروں کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کر پائے کسی کی والدہ تو کسی کے والد کسی کی بیوی تو کسی کے بہن بھائی اور کچھ کے تو بچے بھی اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے پر وہ بچارے یہیں روتے نظر آئے جہاں عموماً ان کو تو تسلی دینے والا بھی کوئی اپنا نہیں ہوتا غیر ہی ہوتے ہیں۔
کچھ تو ایسے نظر آتے ہیں جو بچارے دن رات مزدوری کرتے ہیں اک ہی کمرے میں چھے چھے آٹھ آٹھ لوگ رہتے ہیں اور اپنی کمائی اپنے پیاروں کو ارسال کرتے رہتے ہیں جن میں کچھ تو انکا خیال کرتے ہیں اور جمع کرتے ہیں کہ مشکل وقت میں کام آئے اور کہیں تو انتہائی عجیب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انکے بھجے گئے پیسوں پر عیاشیاں کی جاتی ہیں اور اگر کوئی ان عیاش موصوف سے پوچھے کہ آپ کیا کرتے ہیں تو جواب ہوتا ہے “وڈے پائین / ابا جی باہر ہندے نے”
خدا کیلئے اپنے پردیسی پیاروں کا خیال رکھیں کہ جب وہ جھکی کمر کے ساتھ واپس آئے تو انکو خوشحالی نظر آئے ورنہ یقین کریں پردیسی یہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ ابھی تک وطن میں کچھ نہیں بنا جا کر کیا کرونگا اور یہی سوچتے سوچتے اک دن ختم ہو جاتا ہے اور یقین کریں ہم نے بہت سے تابوت وطن کو روانہ کئے ہیں۔
کچھ کی کہانی تو انتہائی درد ناک ہے کہ جب وہ زندہ سلامت وطن پہنچتے ہیں تو ان کو سننے کو ملتا ہے تو نے ہمارا کیا ہی کیا۔
بچے کہتے ہے جب ہمیں آپ کی ضرورت تھی تو آپ باہر تھے اب ہمیں آپ کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ وہ اپنے پاؤن پر کھڑے ہو چکے ہوتے ہیں
کاش اسوقت کوئی اس شخص کو سمجھے کہ وہ پردیس گیا ہی کیوں تھا اس نے اپنے بچوں کی خاطر ہی تو اپنا آپ قربان کر دیا ماں، باپ بیوی سے دور رہا پر اسکو سمجھنے کیلئے ان حالات سے گزرنا ضروری ہے
کچھ کے والدین ان کو ان کے حق جائیداد سے یہ کہہ کر مرحوم کر دیتے ہیں کہ تو نے تو بہت کمایا ہے اس لئے جائیداد کا اپنا حصہ تو اپنے بہن بھائیوں کے لئے چھواڑ دے
اور وہ بیچارہ جس نے سب کی زندگی بھر کفالت کی ہوتی ہے اور ان کو ان کے پاؤں پر کھڑا کیا ہوتا ہے اور جس جائیداد کے متعلق مطالبہ کیا جا رہا ہوتا ہے عموماً اس کے بھیجے ہوئے پیسوں سے ہی بنی ہوتی ہے اپنے والدین کی احترام میں یاں تو خاموش ہو جاتا ہے یاں پورے خاندان میں بدنام ہو جاتا ہے کہ دیکھو اتنا کما کر بھی اس کی نظر والدین کی جائیداد پر ہے
لکھنے کو اتنا کچھ ہے کہ تحریر ختم ہی نا ہو کیونکہ جس پردیسی کے پاس بیٹھ جاؤ اس کی الگ ہی داستان ہوتی ہے
اہل وطن سے گزارش ہے کہ آپ کو اللہ پاک کا واسطہ پردیسیوں کے دکھ کو سمجھیں اور انکا احساس کریں
شکریہ

Leave a reply