400 کتابوں کا مصنف،80 کروڑ کی جائیداد،پھر بھی آشرم میں زندگی بسر کرنے پر مجبور

ذرا ایک بار سوچئے: ایک ایسا شخص جس کے پاس 80 کروڑ روپے کی بے پناہ دولت ہو، جس نے 400 سے زائد کتابیں لکھی ہوں، جو ایک بڑا بزنس مین ہو اور اس کی بیٹی سپریم کورٹ میں بڑی وکیل بن جائے، لیکن اس کے باوجود اُسے اپنا بڑھاپا کاشی کے کسی کوڑھ کے آشرم میں گزارنا پڑے۔ تو اس بوڑھے سے بڑھ کر بدنصیب کون ہو سکتا ہے؟ جس نے اپنی پوری زندگی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے گزار دی، انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کیا، اور بدلے میں اُسے کیا ملا؟ کاشی کا کوڑھ کا آشرم۔
یہ ایک ایسی دردناک کہانی ہے، جو بھارت کے نامور مصنف شری ناتھ کھنڈیلوال کی ہے۔ جنہیں لوگ ایس این کھنڈیلوال کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ایس این کھنڈیلوال کا شمار ہندوستان کے مشہور مصنفین میں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے سناتن دھرم سے متعلق بے شمار کتابیں لکھیں، اور اس فن میں مہارت حاصل کی۔ ان کی کتابیں نہ صرف ہندوستانی معاشرتی و مذہبی موضوعات پر گہرائی سے روشنی ڈالتی ہیں، بلکہ وہ ایک تاریخی ورثے کا حصہ بن چکی ہیں۔ایس این کھنڈیلوال غلام ہندوستان کے دور میں بنارس (اب وارانسی) میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم کا آغاز عام طور پر ہوا تھا، مگر دسویں جماعت میں وہ فیل ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے تعلیم جاری نہیں رکھی اور کسی بھی رسمی ڈگری کے بغیر زندگی کی راہ اختیار کی۔ لیکن اس کمی کے باوجود ان کے اندر ایک گہرا علمی خزانہ چھپا ہوا تھا۔ صرف 15 سال کی عمر میں، انہوں نے اپنے گرو پدم وبھوشن گوپی ناتھ کی رہنمائی میں کتابیں لکھنا شروع کر دی تھیں۔ اور یہ سلسلہ بڑھاپے تک جاری رہا۔
ایس این کھنڈیلوال نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کتابیں لکھنے میں گزارا۔ ان کی کتابوں نے سناتن دھرم، ہندوستانی ثقافت، اور تاریخ پر روشنی ڈالی، جس کی وجہ سے وہ بہت جلد ادب کی دنیا میں ایک منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کے 400 سے زائد تصنیفات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ کس قدر محنت اور لگن سے کام کرتے تھے۔انہوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی، انہیں بہترین تربیت دی اور خود بھی کاروباری دنیا میں کامیاب ہوئے، جس کے نتیجے میں انہوں نے 80 کروڑ روپے کی جائیداد بنائی۔ مگر اس کے باوجود جب ان کے بڑھاپے کا وقت آیا، تو وہ اپنے بچوں کی مدد کے بجائے ان کے بے رخی اور بے وفائی کا شکار ہوئے۔
ایس این کھنڈیلوال نے اپنی زندگی کے اتنے سال اپنی اولاد کی خدمت میں گزارے، انہیں اپنی محنت سے کامیابی کی راہ دکھائی، لیکن بدلے میں انہیں جو ملا، وہ ایک دل دہلا دینے والی حقیقت ہے۔ بڑھاپے کی حالت میں جب انہیں سب سے زیادہ اپنے بچوں کی ضرورت تھی، ان کے بیٹے اور بیٹی نے ان کے ساتھ بے رحمی کا سلوک کیا۔ ان کے بیٹے نے انہیں گھر سے نکال دیا اور کہا کہ "اسے لے جاؤ اور کہیں پھینک دو، واپس مت لانا”۔یہ وہ لمحہ تھا جب ایس این کھنڈیلوال کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی تکلیف کا سامنا ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ "میرے گھر والوں کے بارے میں نہ پوچھو، میرا ایک خاندان تھا، اب نہیں ہے۔ اب وہ ماضی کی بات ہے، اب میں یہاں کاشی میں رہ رہا ہوں، سارناتھ کے کاشی لیپروسی آشرم میں اپنی زندگی گزار رہا ہوں۔”
اب ایس این کھنڈیلوال کا بیشتر وقت کاشی کے ایک کوڑھ آشرم میں گزرتا ہے، جہاں ان کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ یہاں رہتے ہوئے بھی وہ اپنے مشن کو ترک نہیں کرتے اور اب بھی ایک اور کتاب لکھ رہے ہیں جو عنقریب شائع ہونے والی ہے۔ ان کی زندگی میں اس قدر تلخیاں آئی ہیں، کہ اب وہ اپنے بچوں کے نام لینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب مودی حکومت نے انہیں پدم ایوارڈ دینے کی پیشکش کی تھی۔ وزیر داخلہ نے خود ان سے فون کر کے ان کا نام اس ایوارڈ کے لیے تجویز کیا، لیکن ایس این کھنڈیلوال نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی زندگی میں جتنا دکھ اور تکلیف آئی ہے، وہ اس ایوارڈ سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔
ایس این کھنڈیلوال کی کہانی نہ صرف ایک شخص کی کامیابی اور ناکامی کی داستان ہے، بلکہ یہ اس بات کا بھی غماز ہے کہ زندگی میں کبھی کبھار جو کچھ ہم امید کرتے ہیں، وہ ہمیں نہیں ملتا۔ ایک عظیم مصنف، جو اپنے علم، محنت اور عزم سے دنیا کو متاثر کرتا رہا، آخرکار اپنی اولاد کی بے وفائی اور نافرمانی کا شکار ہو گیا۔یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ دولت، شہرت، اور کامیابی کچھ بھی ہو، اصل حقیقت یہ ہے کہ انسانیت اور اخلاقیات کی قیمت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایس این کھنڈیلوال نے اپنی زندگی کی اس حقیقت کو نہ صرف جیا بلکہ اپنے کام کے ذریعے ہمیں بھی یہ سکھایا کہ انسان کو اپنے کردار اور عمل سے پہچانا جانا چاہیے، نہ کہ محض دولت اور شہرت سے۔
امریکہ خود قاتل،پاکستانی کمپنیوں پر پابندی کی مذمت کرتے ہیں، حافظ نعیم