آئینی ترمیم کا معاملہ ایک بار پھر ڈیڈ لاک کا شکار ہوگیا ہے۔ جاتی امراء میں ہونے والی اہم ملاقات میں، نواز شریف، مولانا فضل الرحمان، آصف علی زرداری، اور دیگر اہم رہنما شامل ہوئے، مگر ملاقات کے نتیجے میں کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہو سکا۔ذرائع کے مطابق، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کی آصف علی زرداری کی آمد سے پہلے ایک ون آن ون ملاقات ہوئی، جس میں مولانا فضل الرحمان نے 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترمیم پیش کرنے کی تجویز دی۔ اس ملاقات کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے بلائی گئی وفاقی کابینہ کا اجلاس موخر کر دیا۔قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں آئینی ترمیم پیش نہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، جس سے معاملے میں مزید پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان آئینی ترامیم کے حوالے سے اپنے فیصلے پر قائم ہیں اور انہوں نے پی ٹی آئی کو بھی اس معاملے میں آن بورڈ لینے کی تجویز دی ہے۔
علاوہ ازیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان بھی آئینی ترمیم کی بعض شقوں پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے ن لیگ کی جانب سے فوجی عدالتوں کے قیام پر بھی اتفاق نہیں کیا۔ اس صورتحال میں دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری رہنے کی توقع ہے، تاکہ آئینی ترمیم کے حوالے سے ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔اس وقت حکومت کے آئینی مسودے پر مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور کرنے میں آصف زرداری اور نواز شریف ناکام رہے ہیں۔ آئینی ترمیم کے حوالے سے جاری مذاکرات کی پیچیدگیوں نے اس مسئلے کو مزید تناؤ میں مبتلا کر دیا ہے، جس کے نتائج ملکی سیاست پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ آئینی ترمیم کے معاملے میں پیشرفت نہ ہونے کے باعث ملکی سیاسی منظرنامہ میں عدم استحکام کے خدشات بڑھ گئے ہیں، اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر جلد ہی کوئی حل نہ نکالا گیا تو یہ مسئلہ سیاسی بحران کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
Baaghi Digital Media Network | All Rights Reserved