نگران حکومت نے جبری گمشدگیوں سے متعلق 5 رکنی حکومتی کمیٹی تشکیل دے دی
اسلام آ باد: نگران حکومت نےلاپتا افراد سے متعلق حکومتی کمیٹی فعال کردی اور جبری گمشدگیوں سے متعلق 5 رکنی حکومتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔
باغی ٹی وی: کابینہ ڈویژن نے نگران وفاقی کابینہ کا فیصلہ وزارت داخلہ کو بھجوادیا،کمیٹی کے سربراہ وزیر قانون و انصاف ہوں گے، کمیٹی ارکان میں وزیردفاع اور وزیر قومی ورثہ و ثقافت شامل ہیں،کمیٹی میں وزیر انسانی حقوق بطور رکن حصہ ہوں گے،کمیٹی میں ایک ماہر قانون یا انسانی حقوق تنظیموں کا نمائندہ شامل ہوگا جب کہ کمیٹی کی رپورٹ اورسفارشات وفاقی کابینہ کو پیش کی جائیں گی، کمیٹی کیلئے وزارت داخلہ سیکریٹریل سپورٹ فراہم کرے گی، حکومتی کمیٹی جبری گمشدگیوں کےکیسز کاجائزہ لے گی، اس سے قبل نگران وزیرداخلہ جبری لاپتا افراد سےمتعلق کمیٹی کےسربراہ تھے۔
در یں اثنا وزارت داخلہ نے مزید کسی بھی شخص کوغیر قانونی لاپتا نہ کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات پر تحریری جواب جمع کرانے سے قبل وزارت قانون وانصاف سے رجوع کرلیا ہے اور ایڈوائس مانگ لی ہے۔
کراچی میں دہشتگردوں کا بڑا نیٹ ورک بے نقاب،اہم کمانڈرز سمیت 17 دہشتگرد گرفتار
حکومتی ذرائع کے مطابق وزارت قانون و انصاف کی ایڈوائس پر وزارت داخلہ عمل آگے بڑھائے گی، اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع کو گذشتہ ہفتے لکھےگئےخط میں سپریم کورٹ کےحکم پرتحریری اقرارنامہ جمع کرانےکیلئے ضروری کارروائی کرنےکا کہا گیا-
دوسری جانب بلوچستان حکومت نے لاپتا افراد سے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ مسترد کردی، بلوچستان حکومت نے عالمی ادارےکو خط میں رپورٹ پر تشویش کا اظہار کیا ہے او راس حوالے سے وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی نے کہا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا بیان غیر تصدیق شدہ اور علیحدگی پسند عناصرکے پروپیگنڈے پر انحصار کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت پر لاپتا افراد کے لواحقین کو ہراساں کرنے کے الزامات بے بنیاد ہیں، حکومت نے بلوچ لانگ مارچ کو تمام سہولتیں فراہم کیں اور ان کی حفاظت کویقینی بنایا،ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ مایوس کن ہے جسے بلوچستان حکومت مسترد کرتی ہے۔
دوسری جانب سندھ ہائیکورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے پولیس اقدامات کو غیر سنجیدہ قرار دیا ،سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو اور جسٹس خادم حسین تنیو نے لاپتا افرادکی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی جس سلسلے میں پولیس کے تفتیشی افسر نے عدالت کو لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔
دفع 144 کی خلاف ورزی پر لاہور میں گرفتاریاں شروع
دوران سماعت عدالت نے کہا کہ لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق پولیس اقدامات غیرسنجیدہ ہیں، پولیس کا رویہ دیکھ کربہت افسوس ہوتا ہے اور بہت ہی افسوس کا مقام ہے، تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ شہری کو کسی نیحراست میں نہیں لیا، وہ خود سیلاپتا ہے، لاپتا شہری سیاسی جماعت کا کارکن تھا اور ذاتی دشمنی بھی تھی۔
عدالت نے سوال کیا کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ کو خود سیلاپتا ہوگیا ہے، شہری 2015 سیلاپتا ہے، اب بول رہے ہیں خود کہیں چلاگیا ہے، لاپتا شہری کا سراغ نہیں لگایا گیا کیسے حتمی رائے قائم کرلی کہ خود چلاگیاہے؟ اس قسم کا بیان دینے پرتو آپ کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، اگرشہری ازخود روپوش ہے تو تلاش کرنا اور بھی آسان ہے، بعد ازاں عدالت نے دیگرشہریوں کی بازیابی سے متعلق بھی 28 فروری کورپورٹ طلب کرلی۔