چھ ماہ سے سسکتی مامتا اور قصور پولیس – شاہ بانو

0
73

چھ ماہ سے سسکتی مامتا اور قصور پولیس
تحریر شاہ بانو

"بچے” یہ ایسا خوبصورت لفظ ہے کہ یہ نام لیتے ہی آنکھوں میں تارے سے جلملانے لگتے ہیں پھولوں کا تصور آتا ہے اور ان کی چھوٹی چھوٹی حرکتیں اور شرارتوں کے سین سے لبوں پہ مسکراہٹ آ جاتی ہے ۔دنیا کا سنجیدہ سے سنجیدہ اور جابر سے جابر بھی ان کی ننھی حرکتوں کو دیکھ کر کھل جاتا ہے ۔
اور عورت تو شادی کے بعد جوں ہی ماں بنتی ہے اس کی ساری دنیا ان بچوں تک محدود ہو جاتی ہے ۔ اسے لگتا ہے وہ انھیں بچوں کو دیکھ کر جیتی ہے اور یہی بچے اس کے لیے خوشیاں کا باعث ہی تو دکھوں کا مداوا ۔ وہ کتنے بھی درد میں ڈوبی ہو اپنے بچوں پہ نظر پڑتے ہی اس کے شکوہ کرتے لب ٹھہر جاتے ہیں۔اور وہ خود کو دنیا کی خوش قسمت عورتوں میں شمار کرتی ہے ۔

یہ ایک فطری سی بات ہے ہر ماں باپ شادی کے بعد اولاد کی خواہش کرتا ہے اور اس خواہش میں بیٹے کی خواہش زیادہ حاوی ہوتی ہے ۔
بیٹا ایک ایسی نعمت ہے جس کی خواہش انبیا نے بھی کی اور قرآن پاک میں انبیا کی بیٹے کے لیے کی گئی دعائیں ملتی ہیں۔ اور ہمارے ہاں پہلی بار بیٹا ہو جائے تو خوشی سنبھالے نہیں سنبھلتی ۔بعض ماں باپ بیٹی کی بھی بہت خوشی مناتے ہیں لیکن بیٹے کی خواہش پھر بھی رہتی ہے
میرا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے اللہ رب العزت سے پہلی بار بیٹا مانگا لیکن بیٹی ہوئی تو پھر بھی خوش تھی لیکن بیٹے کی تڑپ پھر بھی تھی۔پھر ساڑھے چار سال بعد اللہ نے جب دوسری بھی بیٹی دے دی تو اللہ رب العزت کی طرف یہ رحمت بھی بہت اچھی لگی لیکن زچ ہے کہ
بیٹے کی خواہش مزید بڑھ گئی تھی ۔ پھر شادی کے سات سال بعد اللہ نے بیٹے کی نعمت دی تو خوشی سے اپنی تکلیف بھول چکی تھی ۔اور جی چاہتا تھا وارڈ سے باہر بھاگ جاؤں اور ساری دنیا کو خوش خبری سناؤں کہ اللہ رب العزت نے بیٹا دیا ہے ۔
۔اور اگر بیٹے کے انتظار میں چودہ سال گزر جائیں تو سوچیں پھر ماں باپ کی تڑپ کہاں پہنچ جائے گی؟
جی ہاں قصور کے رہائشی عبدالرحمن کے ہاں پہلی اولاد ایک بیٹی کے چودہ سال بعد اللہ رب العزت نے بیٹے کی نعمت سے نوازا تو اس ماں کی خوشی کا اندازہ لگائیے؟
اس ماں نے آنکھوں میں کتنے سپنے سجا لیے ہوں گے ؟
کیا کیا سوچا ہو گا؟
کس طرح یہ خوشی منانی؟
کیسے کیسے کپڑے پہناوں گی ؟
کیسے شوز ہوں گے ؟ اس نے تو خیالوں میں کتنی بار سکول بھی بھیجا ہو گا۔
دل خوشی سے قابو میں ہی نہ آتا ہوگا ۔
کہ اچانک اس کے سپنے توڑ دئیے گئے اس کی خوشی لوٹ لی گئی اور اسے غم کے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا ۔
جی ہاں قارئین! 30 اگست 2019 کو ملنے والی یہ خوشی 31 اگست 2019 کو اس وقت غم میں تبدیل ہو گئی جب بچے کو اس کی خالہ نے اٹھایا ہوا تھا کہ ایک ظالم عورت اس کے پاس آئی اور اس سے پوچھا کیا بچے کو پولیو کے قطرے پلادئیے ؟
بچے کی خالہ نے جواب دیا "نہیں ” ۔
اس پہ اس عورت نے کہا چلو لگواتے ہیں اور ڈی ایچ کیو ہسپتال کی وارڈ نمبر 24 کے پاس لے گئی اور وہاں اسے ایک پرچہ تھمائی اور کہا کہ یہ دوائی لے کر آؤ میں اسے اتنے میں انجیکشن لگواتی ہوں۔
بچے کی خالہ جب دوائی لے کر واپس آئی تو وہ عورت وہاں سے غائب تھی ۔
بچے کی خالہ کے اوسان خطا ہوگئے اور اسے ڈھونڈنے لگی لیکن وہ عورت وہاں سے غائب ہو چکی تھی۔
سوچیں اس ماں کی کیفیت کا اندازہ لگانا بھی محال ہے ۔
اس کے اوپر جو غم کا پہاڑ ٹوٹا ہے کیسے جیتی ہوگی ٹوٹے خوابوں، کرچی دل ،ہر سانس غم میں ڈوبی وہ ماں۔
ماں بچوں کے لیے دنیا کا سب سے زیادہ چاہنے والا رشتہ جو بچے کی ذرا سی تکلیف پہ تڑپ جاتی ہے اگر اس کا بچہ اللہ لے جائے تب بھی اس کی تکلیف ساری دنیا کے دکھوں سے بڑھ کر ہوتی ہے اور اگر خدانخواستہ گم ہوجائے یا اغواء تو پھر ایک ایک لمحہ سولی پہ گزرتا ہے۔
ایک ویڈیو میں اسے تڑپتا ہوا سنا بھی جا سکتا ہے جب وہ روتے ہوئے کہتی ہے "جانے کس حال میں ہوگا میرا بچہ”۔تو کبھی وہ حکومت سے اپنے بچے کی بازیابی کے لیے فریاد کرتی نظر آتی ہے ۔
بچہ اغواء کرنے والی عورت سی سی ٹی وی کیمرہ کی مدد سے پکڑی بھی جا چکی ہے لیکن وہ اصل حقیقت نہیں بتا رہی ۔
وہ کبھی کہتی ہے کہ بچے کو نالے میں پھینک دیا تھا تو کبھی کہتی ہے بیچ دیا تھا ۔
لیکن نالے میں پھینکے جانے والا بیان اس لیے بھی غلط ہے کہ سنا ہے نالہ ان دنوں خشک تھا دوسرا اس عورت کو یہ لوگ جانتے ہی نہیں تو جب جانتے نہیں پھر دشمنی کا بھی کوئی امکان نہیں، جب دشمنی نہیں تو بچے کو نالے میں پھینکنے کا ایک اجنبی عورت کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔
البتہ بچے کس بیچنے والی بات قابل یقین ہے ۔
ایسا ہی لگتا ہے کہ کسی بے اولاد جوڑے نے یا عورت نے اس سے بچے کی ڈیمانڈ کی ہوگی ۔
یا یو سکتا ہے اس عورت کا تعلق بچوں کو آگے سیل کرنے والے کسی گروہ سے ہو ۔
بہرحال حقیقت جو بھی ہو پولیس جو بڑے بڑے بدمعاشوں اور مجرموں سے سب اگلوا سکتی ہے تو ایک عورت سے آخر سچ اگلوانے میں ناکام کیوں؟
کیا اس عورت کے ہاتھ قانون کے ہاتھ سے لمبے ہیں؟
یا پھر قصہ کچھ اور ہے ۔
جو بھی ہے ایک غریب خاندان ہونا بھی شاید جرم ہے جو پاکستان کے تھانوں میں اس ماں باپ کے لہولہان دل کو کوئی سکون پہنچانے کی کوشش نہیں ،کسی مسیحائی کی کوئی امید نہیں۔
ہمارا حکومت پاکستان سے بھی مطالبہ ہے کہ اس غریب ماں باپ کے جگر کے ٹکڑے کو فورا بازیاب کروایا جائے اور تڑپتی مامتا کے دل کا قرار لوٹایا جائے ۔
اگر پولیس مجرم ملنے کے باوجود چھ ماہ سے بچے کو بازیاب نہیں کروا سکی تو تھانہ ایس ایچ کو معطل کیا جائے۔
اور حقائق سامنے لائے جائیں۔
آخر میں ہماری دعا ہے اللہ رب العزت ان ماں باپ کی مدد فرمائے اور ان کا بچہ ان کا سکون انھیں واپس لوٹا دے ۔آمین یا رب العالمین

Leave a reply