سات سالہ بچی زیادتی کے بعد قتل،ملزمان کی پھانسی کے لئے ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ

0
103

سات سالہ بچی زیادتی کے بعد قتل،ملزمان کی پھانسی کے لئے ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخواہ کے ضلع نوشہرہ کے علاقے زیارت کاکا صاحب میں سات سالہ بچی عوض نور کو مدرسہ میں پڑھنے کے لئے جاتے ہوئے راستہ اغوا کرلیا گیا ،جسے مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ملزمان نے معصوم بچی کا گلہ دبا کر پانی کی ٹینکی میں غوطے دے دے کر قتل کر دیا۔

پولیس کے مطابق ملزمان بچی کے چچا اور دیگر اہل علاقہ کو دیکھ کر بچی کو پانی کی ٹینکی میں پھینک کر فرارہوگئے بچی کی لاش ٹینکی سے نکالی گئی اور پھر اہل علاقہ نے ملزمان کا پیچھا کرکے رات گئے دونوں ملزمان کو گرفتارکر لیا۔

بچی کا پورسٹ مارٹم خیبر میڈیکل کالج میں کرایا گیا بچی اور ملزمان کے نمونے ڈ ی این اے ٹیسٹ کے لیے فرانزک لیبارٹری روانہ کردئیے گئے۔کمسن بچی کے ساتھ زیادتی کے واقعہ پر علاقہ بھر میں غم و غصہ پایا جاتا ہے، علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے اور عبرت کا نشان بنایا جائے

https://twitter.com/AmmaraMuhammad/status/1219322561265389570

ننھی بچی کو انصاف دلوانے کے لئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹرینڈ چل رہا ہے اورصارفین حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس بچی کے قاتلوں کو سر عام پھانسی دی جائے ، ٹویٹر صارفین کا کہنا ہے کہ اگر ماضی میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو سزائیں ملتی تو ایسے واقعات میں کمی آتی لیکن ایسا نہیں ہوا.

نواز شریف کے قریبی دوست میاں منشا کی کمپنی کو نوازنے پر نیب کی تحقیقات کا آغاز

نواز شریف سے جیل میں نیب نے کتنے گھنٹے تحقیقات کی؟

تحریک انصاف کا یوٹرن، نواز شریف کے قریبی ساتھی جو نیب ریڈار پر ہے بڑا عہدہ دے دیا

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے زینب الرٹ بل پرسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اعتراضات عائد کر دئیے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قانونی ترامیم کے بغیر قائمہ کمیٹی بل منظور نہیں کر سکتی۔ ہم چاہتے ہیں بل میں کریمنل لا ترامیم شامل کرکے دائرہ کار صوبوں تک بڑھایا جائے۔

وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے زینب الرٹ بل پر کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ 18ویں ترمیم کے بعد ہم کوئی بھی بل صوبوں پر مسلط نہیں کر سکتے، اس لیے زینب الرٹ بل کو اسلام آباد کی حدود تک محدود رکھا گیا ہے۔

چئیرمین کمیٹی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ چاہتے ہیں بل میں کریمنل لا ترامیم شامل کرکے دائرہ کار صوبوں تک بڑھایا جائے۔ زینب الرٹ بل میں والدین سے تاوان وصول کرنے کا ذکر ہی نہیں، کمیٹی نے بل پر قانونی خامیوں کی نشاندہی کی جس کا آئندہ اجلاس میں جائزہ لیں گے۔ قانونی ترامیم کے بغیر قائمہ کمیٹی بل منظور نہیں کر سکتی۔

کمیٹی رکن جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ زینب الرٹ بل پر اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی آن بورڈ لیا جائے۔ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں سیکرٹری قانون وانصاف کو بھی طلب کر لیا۔

زینب الرٹ بل، کم عمر بچوں سے زیادتی اور قتل کے جرم پر سزائے موت ختم کر دی گئی،بل میں 18سال سے کم عمربچوں سے زیادتی اور قتل کے مجرم کے لیے 10سے 14 سال قید تجویز کی گئی ہے.اس سے قبل پیش ہونے والے بل میں بچوں سے زیادتی اور قتل پر سزائے موت تجویز کی گئی تھی،بل میں مجرم پر ایک سے 2 کروڑ روپے جرمانہ کی سزا بھی تجویز کی گئی.

قائمہ کمیٹی انسانی حقوق نے قتل اورزیادتی کے مجرموں کے لیے 10سے14سال قید کی سزا تجویز کی،قائمہ کمیٹی کی رپورٹ میں جرمانہ کی سزا بھی ختم کردی گئی.

بلاول بھٹو کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے زینب الرٹ بل کو کافی عرصے تک طول دیا ,قائمہ کمیٹی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے 9 اکتوبر 2019 کو ’زینب الرٹ بل‘ کی منظوری دے دی تھی۔ کمیٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ یہ بل صرف اسلام آباد میں لاگو ہوگا۔ اسے ملک بھر میں نافذ کرنے کیلئے چاروں صوبائی اسمبلیوں کو بھی ’زینب الرٹ بل‘ پاس کرنا چاہیے تاکہ بچوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔

زینب الرٹ جوابی ردعمل اور بازیابی بل 2019ء پر قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کی رپورٹ شازیہ مری نے پیش کی۔ اسلام آباد میں معذور افراد کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بھی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے۔ وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ زینب الرٹ بل کو بغیر کسی تاخیر کے منظور کیا جائے۔ جمعہ کو بل منظور کر کے سینیٹ کو بھجوا دیا جائے۔ پہلے ہی بہت تاخیرہو چکی ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ فوری قانون سازی کا مرحلہ مکمل ہو جائے۔

زینب الرٹ بل قصور کی ننھی بچی زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بعد وقافی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے پیش کیا تھا۔ بل کا مقصد 18 سال سے کم عمر لاپتہ اور اغوا شدہ بچوں کے تحفظ کے لیے قوانین واضع کرنا ہے۔ بل کے مطابق اسلام آباد میں ’چلڈرن پروٹیکشن ایکٹ 2018‘ کے تحت ادارہ قائم کیا جائے گا جبکہ لاپتہ بچوں کی فوری بازیابی کیلئے ’زارا‘ یعنی زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی کا قیام بھی بل کا حصہ ہے۔

زیب الرٹ بل کے تحت بچوں سے متعلق معلومات کے لیے پی ٹی اے، سوشل میڈیا اور دیگر اداروں کے تعاون سے ہیلپ لائن اور ایس ایم ایس سروس بھی شروع کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل قومی کمیشن برائے حقوق طفل متعلقہ ڈویژن کی مشاورت سے سپرنٹنڈنٹ پولیس کی سربراہی میں خصوصی ٹیمیں بھی تشکیل دے گا۔

اس بل کے تحت گمشدہ بچوں کے حوالے سے ڈیٹا فراہم کرنے میں تاخیر پر سرکاری افسروں کو ایک سال تک قید کی سزا بھی ہو سکے گی۔

زینب بل کے تحت زاراکے نام سے اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ بل کے متن میں لکھا گیا ہے کہ بچوں سے متعلق جرائم کا فیصلہ تین ماہ کے اندرہوگا۔ بچوں کے خلاف جرائم پر کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال قید سزا دی جاسکے گی اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہوسکے گا۔گمشدہ بچوں سے متعلق ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا۔

1099فری ہیلپ لائن قائم کی جائے گی جس پر بچے کی گمشدگی، اغوا اور زیادتی کی اطلاع فوری طور پر ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، ہوائی و ریلوے اڈوں، مواصلاتی کمپنیوں کے ذریعے دی جائے گی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق جو سرکاری افسر دو گھنٹے کے اندر بچے کے خلاف جرائم پر ردعمل نہیں دے گا اسے بھی سزا دی جاسکے گی۔لاپتہ یا اغواشدہ بچے کی بازیابی کے لئے ضابطے کے تحت عمل نہ کرنے والا پولیس افسر دفعہ 182 کا مرتکب قرار دیا جائے گا

بل کے متن کے مطابق 18سال سے کم عمر بچوں کااغوا، قتل، زیادتی، ورغلانے، گمشدگی کی ہنگامی اطلاع کے لئے زینب الرٹ جوابی ردعمل و بازیابی ایجنسی قائم کی جائے گی۔ بچے کو منقولہ جائیداد ہتھیانے کے لئے اغوا پر چودہ سال قید دس لاکھ جرمانہ ہوسکے گا۔تاوان کے لئے اغوا کرنے والے کسی بھی شخص کو عمر قید اور دس سال جرمانہ ہوگا۔

 

https://twitter.com/shakilmnd/status/1219322653208608769

 

 

Leave a reply