آٹھ گھنٹے گھر پر بیٹھ کر گزاریں گے تو آپ کی بیوی بھاگ جائے گی۔اڈانی

adani

انفوسس کے چیئرمین نارائن مورتی کی طرف سے ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنے کے بیان نے انٹرنیٹ پر ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ ان کے اس بیان پر مختلف طبقوں کی جانب سے مختلف ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔ نارائن مورتی کا کہنا تھا کہ اگر ہم اپنے ملازمین سے زیادہ محنت کرانے کا سوچتے ہیں تو ہمیں اس کی نوعیت کو سمجھنا ہوگا اور اس کی وجہ سے کام کے اوقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

ان کے اس بیان کے بعد لارسن اینڈ ٹوبرو کے چیئرمین ایس این سبرامنیم نے ایک متنازعہ بیان دیا جس میں انہوں نے اپنے ملازمین سے ہفتے میں 90 گھنٹے کام کرنے کی اپیل کی۔ سبرامنیم نے یہ تک کہا کہ اگر انہیں اتوار کو بھی کام کرانے کا موقع ملے تو وہ اس پر خوش ہوں گے کیونکہ وہ خود اتوار کو بھی کام کرتے ہیں۔ ان کا یہ بیان سوشل میڈیا پر مزید بحث کا باعث بنا اور لوگوں نے ان کی باتوں کو مختلف طریقوں سے زیرِ بحث لایا۔

سبرامنیم کا کہنا تھا کہ ’’اگر آپ گھر پر بیٹھ کر کام نہ کر رہے ہیں تو آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ اپنی بیوی کو کب تک گھوریں گے؟‘‘ اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ملازمین کی فلاح و بہبود اور کام و زندگی کے توازن پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

اسی دوران، اڈانی گروپ کے چیئرمین گوتم اڈانی نے بھی ورک لائف بیلنس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران گوتم اڈانی نے کہا کہ ’’ورک لائف بیلنس تب محسوس ہوتا ہے جب انسان اپنی پسند کا کام کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’جب آپ یہ حقیقت قبول کر لیتے ہیں کہ آپ فانی ہیں تو زندگی آسان ہو جاتی ہے۔‘‘گوتم اڈانی نے خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ورک لائف بیلنس کو نہ تو میرے اوپر تھوپنا چاہیے اور نہ ہی میری پسند کو کسی دوسرے پر تھوپنا چاہیے ۔‘‘ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر کوئی شخص چار گھنٹے اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارتا ہے اور اس میں خوش رہتا ہے، تو وہ اس کا ورک لائف بیلنس ہے، چاہے کسی اور کا توازن مختلف ہو۔‘‘. یا کوئی دوسرا شخص آٹھ گھنٹے گزار کر لطف اندوز ہوتا ہے، تو یہ اس کا توازن ہے، اس کے باوجودکہ اگر آپ آٹھ گھنٹے گھر پر بیٹھ کر گزاریں گے تو آپ کی بیوی بھاگ جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’کام اور زندگی کا توازن اس وقت ہوتا ہے جب آپ وہ کام کرتے ہیں جو آپ پسند کرتے ہیں۔ ہمارا کوئی اور مقصد نہیں ہے سواۓ اس کے کہ ہم اپنے پیاروں کے ساتھ خوش رہیں۔‘‘ گوتم اڈانی نے اس بات پر زور دیا کہ ’’ہماری دنیا یا تو خاندان ہے یا کام، اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘

ان بیانات نے ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پر ورک لائف بیلنس اور محنت کے اوقات پر بحث کو شدت دے دی ہے، جہاں مختلف لوگ اس بات پر متفق یا غیر متفق نظر آ رہے ہیں کہ کیا واقعی اتنے زیادہ کام کے اوقات کار درست ہیں یا یہ ملازمین کی صحت اور فلاح کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔

محمد آصف نے سارک اسنوکر چیمپئن شپ جیت لی،صدر،وزیراعظم کی مبارکباد

اسپین جانے والی پناہ گزین کشتی پر بچی کی پیدائش

2025 کے لیے دنیا کے طاقتور ترین پاسپورٹ،پاکستان کا کونسا نمبر؟

Comments are closed.