وہ شام کا وقت تھا ایک بوڑھی ماں دو کہساروں کا فاصلہ طے کر کے ایک چھپڑ سے بنی مسجد کے چبوترے پہ پہنچتی ہے دو باریش داڑھیوں والے سفید پگڑیاں پہنے ہوئے آدمی اس مسجد میں اس چھپڑ کے نیچے بچھے ٹاٹ پہ بیٹھے ہیں لوگ ان کے پاس بجھے چہرے لیے حاضر ہوتے ہیں اٹھتے وقت مسرت بھری ہشاشیت کے ساتھ واپسی کی راہ پکڑ رہے ہیں
یہ بڑھیا جب اس چبوترے پہ چڑھتی ہے تو ان دو آدمیوں کی طرف سے اشارہ ہوتا ہے کہ اماں جی کو سہارا دے کے ہمارے پاس لایا جائے اماں کو قریب لایا جاتا ہے تو وہ بوڑھی اماں اپنے آنسو گرا کے اپنی روداد بیان کرتی ہے کہ میرے بیٹوں نے میری زمین پہ قبضہ جما لیا ہے اور اب وہ اس کو اپنی حق ملکیت گردانتے ہوئے مجھے نکل جانے کا کہتے ہیں
اماں کی بات سن کے وہاں ان دو لوگوں کے پیچھے بیٹھا کاتب ایک رقعہ لکھ کے اس ماں جی کو دے دیتا ہے کے اماں یہ رقعہ اپنے بیٹوں کو تھما دینا اماں جب وہ رقعہ دیکھتی ہے تو وہاں اس اماں کے دونوں بیٹوں کو قاضیان کی طرف سے طلبی کا نوٹس لکھا ہوتا ہے کے فلاں تاریخ کو وہ مسجد حاضری دیں
دن گزرے اور مقررہ تاریخ پہ وہ اماں دوبارا وہیں پہنچتی ہے جہاں کچھ دن پہلے اپنا درد لیے حاضر ہوئی تھی وہاں آج منظر یہ ہے کہ ماں جی کے دونوں بیٹے بھی وہیں اسی چبوترے پہ چھپڑ کے نیچے ٹاٹ پہ بیٹھے ہوئے قاضیان کے سامنے پیش ہیں
قاضی دونوں طرف سے دلائل سننے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں کہ ماں جی کا فلاں حصہ انکو لوٹایا جائے ورنہ سختی والا معاملہ پیش آئے گا۔
جو حکم ہوا ویسے ہی ہوا اور انصاف کی ایک تاریخ رقم ہوئی یہ تو وہ واقعہ ہے جو ہمارے سامنے غیرملکی جریدے کی ایک رپورٹر نے پیش کیا ایسے ہزاروں واقعات ہمیں ان لوگوں کی تاریخ میں بھرے ہوئے ملیں گے.
7 اکتوبر 2001 کو ایسے پرامن درویش لوگوں پر دور حاضر کا فرعون اپنے لاؤ لشکر لے کے طاقت کے نشے میں دس دن کی گیم سمجھ کے ان پہ چڑھ دوڑا کیونکہ وہاں کی فضاؤں اور ہواؤں میں خلافت اور اسلام کی ایک پرمسرت اور پراثر فضاء اپنی بہاروں کے ساتھ جگمگانا شروع ہو گئی تھی لوگ آہستہ آہستہ ان چیزوں میں فٹ بیٹھنا شروع ہو گئے تھے اور دنیا کو یہ چیز ناقابل برداشت تھی.
جب دنیا کا کفر یکجا ہو کے ان نہتے درویشوں پہ چڑھا تو ان درویشوں نے انہی مسجدوں کے چبوتروں کو معسکرات میں تبدیل کر لیا جہاں سے وہ اپنا اور اپنے لوگوں کا دفاع کرنے لگے کفر اس پلاننگ سے آیا ہے دس دنوں کا کھیل ہے مگر اسے کیا خبر تھی کہ جس کو ھم کھیل سمجھ رہے ھیں، ھمارے سامنے والے اس میدان کے سکندر ہوں گے. ہم نے ایسے ایسے اللہ کی نصرت کی نشانیاں اور واقعات سنے کہ سنتے سنتے سبحان اللہ کا کلمہ زبان سے جاری ہو جاتا تھا.
ان لوگوں نے اپنے سیاسی سماجی معاشی ہر قسم کے معاملات چلائے انہوں نے بھی اس دنیا میں رہنا سیکھا۔ وہ بھی ان دھمکیوں کا شکار ہوئے کہ ہماری بات کو تسلیم کرلو نہیں تو ہم تمہیں بلیک لسٹڈ کر دیں گے یا ہم تمہیں گرے لسٹ سے نکال دیں گے یہ سب دھمکیاں انہوں نے بھی سنیں مگر ان دھمکیوں کو سننے کے باوجود اپنی غیرت نہیں بیچی اپنے آپ کو ان کے چرنوں میں لٹا نہیں دیا.
دیکھو اٹھاو ان کے بیانات۔۔۔
ملا محمد عمر علیه رحمه الله کی وہ تقاریر۔۔۔
ایک.غیرت ایک حمیّت
ایک جذبہ نظر آتا ہے
اے امریکیو! اے افغانی امریکیو! اپنے آپ کو دھوکے میں مت ڈالو! تمہارے اعمال کا نتیجہ بہت سخت ہوگا، یہاں قابض ہونے کے خواب دیکھنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
افغانیو! اگر تمہیں اسلامی قوانین کی پرواہ نہیں تو پھر اسلام بھی کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ تم امریکیوں کا ساتھ دیتے ہوئے جان دو گے تو مردار کہلاؤ گے۔ اے امریکیو! تم آجاؤ، میں بھی دیکھتا ہوں تم کس طرح آتے ہو اور جب تم آ جاؤ گے تو اپنا انجام بھی دیکھو گے”.
بس یہ تھا کے وہ ثابت قدم ہونے کے وقت ثابت قدم ہوئے اللہ کے فرامین کو سمجھنے والے بنے کہ
”دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی سر بلند ہو گے اگر تم مومن ہو (آل عمران:139)
اور آج اللہ ان لوگوں کو ان کے ڈٹ جانے کا صلہ دے رہا ہے.
اللہ انکو تمغے دے رہا ہے
جن درویشوں کی فتح سے سجی سفید پگڑیاں اربوں کی تعداد میں بسنے والی مسلم امہ کو ایک راہ دکھا رہی ہیں
کہ زندگی شیروں کی طرح جیو گیدڑوں کی طرح جی کے بھی آخر مر ہی جاو گے جب مرنا ہی ہے تو یا فاتح بن جاو یا شھید ہو جاو.
وہ لوگ تب ثابت قدم رہے
آج چوڑے سینوں کے ساتھ
سفید پگڑیاں سر پہ سجائے
اور وائٹ ہاوس کو جھکائے
وہ ایک امن معاہدوں پہ دستخط کروا کے
تکبیر کے نعرے بلند کرتے ہوئے مسلمانوں کو حمیت کا درس دے رہے ہیں.
آج جب امن معاہدوں پہ ہوتے دستخط دیکھ رہا تھا تو ایک دم یہ الفاظ نکلے مؤرخ جب تاریخ لکھے گا تو یہ اس موضوع کے ساتھ ایک باب کا آغاز کرے گا "جب سفید پگڑیوں کے سامنے وائٹ ہاوس جھکا”
سفید پگڑیاں اور وائٹ ہاوس
تحریر: محمد عبداللہ اکبر








