04 مارچ تاریخ کے آئینے میں

1665ء برطانوی بادشاہ چارلس دوم نے ہالینڈ سے جنگ کا اعلان کیا۔

1789ء امریکی کانگریس نے امریکی آئین کی منظوری دی۔

1791ء ورماؤنٹ امریکہ کی چودہویں ریاست بنا۔

1861ء ابراہم لنکن نے امریکہ کے سولہویں صدرکی حیثیت سے سنبھالا۔

1861ء امریکا کا پہلا قومی پرچم بنایا گیا۔

1894ء شنگھائی میں بڑے پیمانے پر آتشزدگی سے ایک ہزار سے زائد عمارتیں راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔

1945ء فن لینڈ نے جرمنی سے جنگ کا اعلان کیا۔

1945ء برطانیہ میں شہزادی ایلزبتھ نے بطور ڈرائیور برطانوی افواج میں شمولیت اختیار کی جو بعد میں ملکہ الزبتھ دوم بنیں۔

1956ء واحد صدارتی امیدوار اسکندر مرزا پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔

1962ء پہلے امریکی ایٹمی پاور پلانٹ نے انٹارکٹیکا میں کام شروع کیا۔

1977ء رومانیہ میں زلزلہ سے ایک ہزار پانچ سو اکتالیس افراد ہلاک ہو گئے۔

2008ء لاہور کے بحریہ وار کالج کی پارکنگ میں خودکش حملہ، 3 اہلکاروں سمیت 5 شہید، 11 زخمی ہو گئے۔

04 مارچ کو پیدا ہونے والی چند مشہور شخصیات

1325ء۔۔۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ٭ برصغیر پاک و ہند کے عظیم بزرگ سلطان المشائخ محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء27صفر المظفر 636ہجری بمطابق 9اکتوبر 1238ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کا اصل نام محمد تھا اور آپ کاسلسلہ نسب حضرت علی تک پہنچتا ہے۔ مولانا علاء الدین اصولی سے قرآن پاک پڑھا اور مزید تعلیم کی حصول کے لیے دہلی پہنچے جہاں آپ نے مولانا شمس الدین وامغانی، مولانا کمال الدین اور مختلف مشاہیر سے مختلف علوم کی تحصیل کی ۔ 20 برس کی عمر میں آپ بابا فرید گنج شکرؒ کی خدمت میں پاکپتن پہنچے جنہوں نے آپ کو اپنا خلیفہ مقرر کیا۔ بابا صاحب نے آپ کو جو نصائح اور ہدایات فرمائیں ان کی تفصیل آپ کی تصنیف راحت القلوب میں درج ہیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے مریدین میں حضرت امیرخسرو کا نام سرفہرست ہے ۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کی تاریخ وصال 4 مارچ 1325ء مطابق 18 ربیع الاول 725 ہجری ہے۔ آپ کا مزار دہلی میں ہے، جہاں ہر سال لاکھوں زائرین حاضری دیتے ہیں۔ آپ سلسلہ نظامیہ کے بانی ہیں جو سلسلہ چشتیہ کی ایک شاخ ہے۔ آپ کی تصانیف میں فوائد الفواد، فصل الفواد، راحت المحبین اور سیر الاولیا کے نام سرفہرست ہیں

1769ء محمد علی پاشا ، مصری فوجی و سیاستدان ، آلِ محمد علی کی سلطنت کے (18 جون 1805ء تا 20 جولائی 1848ء) پہلے بادشاہ اور جدید مصر کے بانی تھے۔ وہ مصر کے خدیو یا والی تھے۔ محمد علی موجودہ یونان کے شہر کوالا میں ایک البانوی خاندان میں پیدا ہوئے۔ نوجوانی میں تجارت سے وابستہ ہونے کے بعد وہ عثمانی فوج میں شامل ہو گئے۔ (وفات: 3 اپریل 1849ء)

1811ء جان لارنس ، برطانوی سیاستدان و شاہی ریاستکار (12 جنوری 1864ء تا 12 جنوری 1869ء) 25واں گورنر جنرل اور وائسرائے ہند۔ (وفات: 27 جون 1879ء)

1882ء سر رالف گرفتھ ، انگریز سفارتکار ، برطانوی ہندوستان میں ایڈمنسٹریٹر تھے اور موجودہ پاکستانی صوبے این ڈبلیو ایف پی (خیبر پختونخوا) کے (1931ء تا 1932ء) پہلےچیف کمشنر اور (1932ء تا 1937ء) پہلے گورنر (وفات: 11 دسمبر 1963ء)

1899ء مہاراج غلام حسین کتھک ، صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی و نگار ایوارڈ یافتہ پاکستان کے معروف کلاسیکی رقاص و معلم (وفات: 29 جون، 1998ء)

1916ء خورشید جہاں بمعروف بیگم خورشید مرزا ، تقسیم ہند سے قبل فلمی ہیروئن اور مشہور پاکستانی اداکارہ، آپ بیتی نگار و سماجی کارکن۔٭4 مارچ 1918ء بھارت کی سابق فلمی اداکارہ اور پاکستان ٹیلی وژن کی ممتاز فنکارہ بیگم خورشید مرزا کی تاریخ پیدائش ہے۔ بیگم خورشید مرزا کا اصل نام خورشید جہاں تھا اور ان کا تعلق علی گڑھ کے ایک ممتاز گھرانے سے تھا۔ ان کے والد شیخ عبداللہ نے علی گڑھ میں مسلم گرلز کالج کی بنیاد رکھی تھی اور ان کی بڑی بہن ڈاکٹر رشید جہاں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی بانیوں میں شامل تھیں۔ ان کی دیگر بہنیں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ خورشید جہاں کی شادی، سترہ برس کی عمر میں ایک پولیس آفیسر اکبر حسین مرزا سے ہوئی۔ خورشید جہاں کے بھائی محسن عبداللہ بمبئی میں دیویکارانی اور ہمانسورائے کے فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ ان کے توسط سے جب دیویکا رانی کی ملاقات خورشید جہاں سے ہوئی تو انہوں نے انہیں اپنی فلموں میں اداکاری کی دعوت دی۔ یوں خورشید جہاں نے رینوکا دیوی کے نام سے فلموں میں کام کرنا شروع کردیا۔ ان کی مشہور فلموں میں جیون پربھات، بھابی، نیا سنسار اور غلامی شامل تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد خورشید جہاں، جو اب بیگم خورشید مرزا بن چکی تھیں پاکستان آگئیں اور انہوں نے یہاں ریڈیو اور ٹیلی وژن کے متعدد ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور ریڈیو کے کئی پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی۔ ٹیلی وژن پر ان کی مشہور سیریلز میں کرن کہانی، زیر زبر پیش،انکل عرفی، پرچھائیں، رومی،افشاں اور انا کے نام سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ ڈرامہ ماسی شربتے میں بھی ان کا کردار بڑا یادگار سمجھا جاتا ہے۔1984ء میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ بیگم خورشید مرزا کی سوانح عمری A Woman of Substance کے نام سے شائع ہوچکی ہے جو ان کی صاحبزادی لبنیٰ کاظم نے تحریر کی ہے۔ 8 فروری 1989ء کو بیگم خورشید مرزا لاہور میں وفات پاگئیں اور میاں میر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

1918ء محمد بن عبد العزیز آل سعود ،سعودی عرب کے حکمران خاندان آلِ سعود کے اہم رکن، سیاستدان اور (2 نومبر 1964ء تا 29 مارچ 1965ء) ولی عہد سلطنت ، اپنے چھوٹے بھائیوں خالد بن عبدالعزیز آل سعود اور فہد بن عبدالعزیز آل سعود کے قریبی اور طاقتور معتمد اور مشیر (وفات: 26 نومبر 1988ء)

1922ء دینا پاٹھک ، بھارتی اداکارہ اور گجراتی تھیٹر کی ڈائریکٹر (وفات: 11 اکتوبر 2002ء)

1932ء سلیم رضا پرانا نام نوئیل دیاس، پاکستانی گلوکار (وفات: 25 نومبر 1983ء)

1932ء میریم مکیبا ، جنونی افریقی اداکارہ و گلو کارہ (وفات: 9 نومبر 2008ء)

1934ء ڈاکٹر حسن منظر ، پاکستانی ماہر نفسیات اور افسانہ نگار

1935ء ڈاکٹر محمد ریاض ، پاکستانی سے تعلق رکھنے والے اردو اور فارسی ادیب، محقق، ماہرِ اقبالیات اور ماہرِ تعلیم (وفات: 26 نومبر 1994ء)

1938ء الفا کوندے ، جمہوریہ گنی کے سیاست دان و مصنف ، وہ دسمبر 2010ء سے جمہوریہ گنی کے صدر اور 30 جنوری 2017 ء تا 28 جنوری 2018ء) سربراہ افریقی اتحاد ۔

1945ء امیرالملک مینگل ، بلوچستانی وکیل، منصف ، (21 نومبر 1996ء تا 17 اپریل 1997ء) چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ اور (8 اپریل 1997ء تا 22 اپریل 1997ء نگران اور 21 اکتوبر 1999ء تا یکم فروری 2003ء) 18ویں گورنر بلوچستان

1965ء خالد حسینی ، افغان نژاد امریکی ناول نگار اور طبیب

1968ء غلام محمد لالی ، پاکستانی سیاست دان ، (یکم جون 2013ء تا 31 مئی 2018ء) پنجاب کے حلقہ این اے۔87 (NA-87 (Jhang-II) سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ممبر چودھویں قومی اسمبلی رہے۔

1970ء اینڈریا بینڈیوالڈ ، امریکی ٹیلی ویژن اداکارہ

1973ء تارا ، بھارتی فلمی اداکارہ

1980ء کملینی مکھرجی ، بھارتی فلمی اداکارہ

1987ء شاردھا داس ، بھارتی فلمی اداکارہ

1990ء اینڈریا بون ، امریکی فلمی اداکارہ

1998ء سعدیہ گل ، بنوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی پیشہ ور اسکواش کھلاڑی

1932ء۔۔۔٭پاکستان کی مشہور اداکارہ، ملکہ جذبات، نیر سلطانہ کی تاریخ پیدائش 4 مارچ 1932ء ہے۔ نیر سلطانہ کا اصل نام طیبہ خاتون تھا اور وہ علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی پہلی فلم ہدایت کار انور کمال پاشا کی قاتل تھی جو 1955ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ اس فلم میں انہوں نے نازلی فرح کے نام سے کام کیا تھا بعدازاں فلم ساز اور ہدایت کار ہمایوں مرزا نے انہیں نیر سلطانہ کا نام دیا اور اپنی فلم انتخاب میں بطور ہیروئن منتخب کیا۔ نیر سلطانہ کی اصل شہرت کا آغاز فلم سات لاکھ سے ہوا۔ انہوں نے مجموعی طور پر 216 فلموں میں کام کیا جن میں 140 فلمیں اردو میں، 49 فلمیں پنجابی میں، ایک فلم سندھی میں اور 6 فلمیں پشتو میں بنائی گئی تھیں۔ نیر سلطانہ کی یادگار ترین فلموں میں سہیلی، اولاد، گھونگھٹ، باجی، ثریا، ماں کے آنسو اور ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سرفہرست تھے۔ انہوں نے پاکستان کے مشہور اداکار درپن سے شادی کی تھی جو پاکستان کی فلمی صنعت کی کامیاب ترین شادیوں میں شمار ہوتی ہے۔ 27 اکتوبر 1992ء کو نیر سلطانہ کراچی میں وفات پاگئیں اور لاہور میں مسلم ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئیں۔

Shares: