ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں آزادیِ اظہارِ رائے اور صحافت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق طالبان کی سخت گیر اور جابرانہ پالیسیوں نے ملک میں میڈیا کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے میڈیا کو سخت کنٹرول میں لے لیا۔ معمولی تنقید پر صحافیوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، قید، تشدد اور جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، طالبان نے ڈراموں، موسیقی اور خواتین کی آواز کو میڈیا سے مکمل طور پر ختم کر دیا ہے جبکہ خواتین صحافیوں پر امتیازی پابندیاں عائد کر کے انہیں میڈیا انڈسٹری سے باہر دھکیلا جا رہا ہے،اعداد و شمار کے مطابق مرد صحافیوں کی تعداد 4 ہزار سے کم ہو کر 2 ہزار رہ گئی ہے جبکہ خواتین صحافیوں کی تعداد 1400 سے گھٹ کر صرف 600 رہ گئی ہے۔ طالبان کا انٹیلی جنس ادارہ اور وزارتِ امر بالمعروف میڈیا دفاتر پر چھاپے مار کر مواد کی جانچ پڑتال کرتی ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان میڈیا کو حکم دیا گیا ہے کہ عوامی مسائل یا حکومتی شکایات پر رپورٹنگ "ریاست کے خلاف پروپیگنڈا” شمار ہوگی۔ طالبان صحافیوں کو زبردستی پیشگی منظور شدہ خبروں کی اشاعت پر مجبور کرتے ہیں، جبکہ رہائی سے قبل ان سے تحریری حلف لیا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ صحافت نہیں کریں گے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق طالبان کی پابندیوں اور سنسرشپ کے باعث افغانستان کے 60 فیصد میڈیا ادارے بند ہو چکے ہیں۔ہیومن رائٹس واچ نے مطالبہ کیا ہے کہ افغان طالبان صحافیوں پر تشدد، سینسر شپ اور خواتین پر امتیازی پابندیاں ختم کرے۔اس سے قبل اقوام متحدہ،اورایمنسٹی انٹرنیشنل افغان طالبان سے صحافت پر قدغن کے خاتمے کا مطالبہ کر چکے ہیں،ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ خطے کی سلامتی پر بھی افغان طالبان کی آمرانہ پالیسیوں کے خطرناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔








