ہنگامہ ہے کیوں برپا۔ آئین اور آئینی عدالت کو لے کر ایک ہنگامہ بنا ہے۔اگردیکھا جائے تو آئین دو اور دو جمع چار کی طرح آسان سوال ہے جبکہ آئین میں سب کچھ درج ہے آئینی حدیں موجود ہیں۔ دنیا میں آئینی عدالتوں کا کوئی ایک عالمی نظام، سسٹم یا مشترکہ ڈھانچہ موجود نہیں دنیا کے ہر ملک نے اپنی ضروریات ، سیاسی تاریخ اور آئینی ڈھانچے کے مطابق الگ الگ ماڈل اختیار کیا ہوا ہے ۔ دنیا میں دوبڑے ماڈل رائج ہیں جن کے مطابق آئینی عدالتی نظام چلتے ہیں ۔ خصوصی عدالتوں کا ماڈل اس ماڈل میں ایک الگ آئینی عدالت ہوتی ہے جو صرف آئین کی تشریح ،آئینی تنازعات اور قوانین کی آئینی حیثیت کاجائزہ لیتی ہے ۔ آئینی عدالت سپریم کورٹ سے علیحدہ ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کا بنیادی طور پر آئینی جائزہ لیتی ہے ،آئینی شکایات کو سنتی ہے ۔ حکومتی اداروں کے باہمی تنازعات کا فیصلہ کرتی ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک میں یہ ماڈل موجود ہیں ۔ جرمنی، اٹلی، اسپین ، آسٹریا ، ترکیہ ، جنوبی افریقہ ، مصر، کئی یورپی ممالک اور لاطینی امریکی ممالک میں یہ ماڈل موجود ہیں۔ا مریکن سپریم کورٹ ماڈل اس نظام میں آئینی معاملات کی نگرانی ، سپریم کورٹ ہی کرتی ہے کوئی الگ آئینی عدالت نہیں ،امریکن سپریم کورٹ ماڈل بھارت ، کینیڈا ، آسٹریلیا اور پاکستان میں موجود تھا۔

پاکستان نے بھی آئینی تنازعات کے حل کے لئے آئینی عدالت بناد دی۔ ہر ملک کے آئینی مسائل اور عدالتی ڈھانچے مختلف ہوتے ہیں نہ کوئی عالمی کنٹرولنگ باڈی ہے ۔ نہ کوئی بین الاقوامی آئینی کورٹ ۔ نہ ہی کوئی مشترکہ قوانین۔ دنیا کے کئی ممالک میں سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ ہی آئینی معاملات کو دیکھتی ہے جبکہ یورپی ممالک کے کئی ممالک میں الگ آئینی عدالتیں موجود ہیں۔ رہا سوال عدالتوں کا ، عدالتیں آئینی ہوں یا عمومی اصل مسئلہ انصاف کا ہے ۔ دنیا کے بنائے ہوئے عدالتی نظام اپنی جگہ ا ہم ہیں مگر سب سے بڑی حقیقت یہ ہے انسان نے ایک دن اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ وہاں نہ سفارش نہ جھوٹ، نہ دنیاوی طاقت ۔ وہاں صرف سچ اور عدل قبول ہو گا۔ وہ لوگ جو انصاف تقسیم کرنے کی ذمہ داری رکھتے ہیں اپنے حلف اور اپنے ضمیر کی پاسداری کریں۔ عدالت کا منصب کوئی دنیاوی اعزاز نہیں بلکہ ایک امانت ہے اور امانت میں خیانت سب سے بڑا ظلم ہے۔ اگر کوئی جج ، ا فسر، یا اختیار رکھنے والا شخص اپنے فیصلوں سے سچائی سے ہٹ جائے وہ انسانوں کے حقوق کو پامال کرتا ہے بلکہ خود اپنے انجام کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے ۔ دنیا کی عدالتیں وقتی ہیں ان کے فیصلے محدود ہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ کی عدالت ابدی ہے وہاں پورا حساب لیا جائے گا۔انصاف صرف کتابوں کا لفظ نہیں یہ دلوں کی گہرائی میںاُتر کر انسانیت کو روشنی دیتا ہے اور وہ معاشرہ ہی ترقی پا سکتا ہے جہاں انصاف زندہ ہو اور ہر شخص اپنے اختیار کو ذمہ داری سمجھ کر استعمال کرے۔ اللہ تعالی کا حکم ہے کہ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔ یاد رکھیے و لوگ زمینی عدالتوں میں انصاف سے روگردانی کرتے ہیں وہ سمجھ لیں کہ وہ انسانوں کے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حق کو مجروح کرتے ہیں۔

Shares: