اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف مبینہ جعلی ڈگری کیس کی سماعت ہوئی.

جسٹس طارق محمود جہانگیری ڈگری کیس کی درخواست منظور،عدالت نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو نوٹس جاری کردیے،عدالت نے تین دن میں جواب طلب کر لیا،چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے آرڈر جاری کیا

درخواست گزار میاں داؤد عدالت میں پیش ہوئے،وکلاء کی کثیر تعداد روسٹر پر آگئی،ایچ ای سی نے اپنا اور کراچی یونیورسٹی کا جواب جمع کروا رکھا ہے،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ باقی لوگ بیٹھ جائیں ،پہلے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل سنیں گے ، درخواست گزار میاں داؤد ایڈوکیٹ عدالت میں پیش، ایچ ای سی اور کراچی یونیورسٹی کے تحریری جواب داخل کر دیے،عدالت نے وکلاء کو بیٹھنے کی ہدایت کر دی

درخواست گزار میاں داؤد ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے،اسلام آباد بار کے صدر نعیم گجر بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے،ممبر اسلام آباد بار کونسل راجہ علیم عباسی بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے،چیف جسٹس نے کہا کہ کیس قابل سماعت ہونے پر پہلے درخواست گزار پھر بار اس کے بعد عدالتی معاون کو سنوں گا ،وکیل درخواست گزار نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 193 کے تحت ہائیکورٹ جج کے لیے وکیل ہونا لازم ہے ، ڈان اخبار میں اس حوالےسے خبر شائع ہوئی ،کراچی یونیورسٹی کے کنٹرول امتحانات نے تصدیق کی کہ لیٹر درست ہے ، کراچی یونیورسٹی کے لیٹر میں کہا گیا گیا جج کی ڈگری فیک ہے ، 1998 سے طے ہے ملک اسد علی کیس ہے ، اس کیس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کیا کسی ہائیکورٹ کے جج کے خلاف اسی ہائیکورٹ میں پٹیشن قابل سماعت ہے یا نہیں ،

چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے درخواست گزار میاں داؤد ایڈوکیٹ سے استفسار کیا کہ کیا یہ کو وارنٹو پٹیشن ہے؟ وکیل میاں داؤد نے کہا کہ ہائیکورٹ کا جج بننے کیلئے وکیل ہونا لازمی ہے، ہم نے ایک اخبار کی خبر کی بنیاد پر کووارنٹو کی درخواست دائر کی،رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی کراچی یونیورسٹی کو ایک ای میل کی،رجسٹرار کی ای میل کے جواب میں تمام باتوں کی تصدیق کی گئی،کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات نے تصدیق کی کہ لیٹر درست ہے،کراچی یونیورسٹی کے لیٹر میں کہا گیا گیا جج کی ڈگری فیک ہے، ہائیکورٹ کے جج کے خلاف اسی ہائیکورٹ میں کو وارنٹو پٹیشن قابلِ سماعت ہے، ہم کووارنٹو کی رٹ میں پوچھ رہے ہیں کہ آپ وکیل یا جج بننے کے اہل نہیں تھے، اس بات کو طول دینے کے بجائے وہ آ کر بتا دیں کہ ان کی ڈگری اصل ہے یا جعلی ہے، آرٹیکل 209 جج کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد لگے الزام سے متعلق ہے، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل نے فیصلہ دیا، جسٹس جہانگیری جج بلکہ وکیل بننے کیلئے بھی کوالیفائی نہیں کرتے تھے،جج پر الزام سچا لگا یا جھوٹا اب بارِ ثبوت اُن پر ہے کہ وہ ثابت کریں کہ ڈگری اصل ہے،

درخواست گزار وکیل کے دلائل مکمل ، عدالت نے عدالتی معاون کو طلب کر لیا ،بیرسٹر ظفر اللہ روسٹرم پر آ گئے ،وکیل اسلام آباد بار نے کہا کہ پہلے بار کو اس کیس میں سنا جائے اس کے بعد عدالتی معاون کو سنا جائے ،میں آٹھ ہزار وکلا کا نمائندہ ہوں مجھے پہلے سنا جائے ، یہ درخواست اسلام ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے درخواست دائر کی ہے ، درخواست گزار وکیل نے اسلام آباد بار کے فریق بننے پر اعتراض عائد کر دیا ،اسلام آباد بار کے وکیل احمد حسن نے دلائل کا آغاز کر دیا،بیرسٹر ظفر اللہ دوبارہ بیٹھ گئے ، اسلام آباد بار کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزرا اس کیس میں متاثرہ فریق نہیں ہے ،اگر یہ سمجھتے ہیں کوئی ایشو ہے تو ان کو بار کونسل جانا چاہیے ،ہائیکورٹ کا جج بننے کیلئے دس سال وکالت کا تجربہ رکھنا ضروری ہے،وکالت کا لائسنس دینا بار کونسل کا کام ہے یہ معاملہ انہوں نے دیکھنا ہوتا ہے، جسٹس طارق جہانگیری کی وکیل بننے کی کوالیفیکیشن میں کوئی سقم ہے تو متبادل فورم موجود ہے، جسٹس طارق جہانگیری کو جج بنانے کیلئے جوڈیشل کمیشن کا نوٹیفکیشن موجود ہے،وکیل کی ڈگری کا معاملہ ڈسٹرکٹ بار اور بار کونسل ہی دیکھتی ہیں، اگر درخواست گزار وکیل صاحب کو مسئلہ ہے تو بار کونسل سے رجوع کریں، جس جج کے خلاف کیس ہے وہ پہلے وکیل رہے، بعد میں جج بنے، وکالت کے بعد جسٹس جہانگیری کو جوڈیشل کمیشن نے جج تعینات کیا، ڈگری اور دیگر معاملات کا فیصلہ بار کونسل نے کرنا ہے،ڈگری غلط ہو تو معاملہ عدالت نہیں، بار کونسل لے کر جانا ہوتا ہے، اگر کسی کو ان کی دس سالہ وکالت پر اعتراض ہے تو بار کونسل میں جائے، ڈسٹرکٹ بار کے وکیل احمد حسن نے کیس زیر سماعت ہونے کی مخالفت کردی،اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار نے جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف کیس قابلِ سماعت قرار دینے کی مخالفت کر دی ،کہا کہ یہ کیس اِس ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کا نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کا اختیار ہے،عدالت بار کونسل کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے،جسٹس جہانگیری کے خلاف کوئی درخواست بار کو نہیں دی گئی، بار کونسلز آزاد اور خود مختار ہیں، درخواست گزار پہلے بار کونسل جائے، وہاں درخواست جمع کرائے،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں عدالت اس کیس میں restrain کرے؟ وکیل ڈسٹرکٹ بار نے کہا کہ عدالت فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ یا فیصلہ نہیں دے سکتی، اگر ایک جج دوسرے جج کو "person in the jurisdiction” سمجھے تو نظام بگڑ جائے گا،عدالت سے استدعا ہے کہ اپنے ہی ساتھی جج کو ماتحت نہ سمجھا جائے،اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل احمد حسن کے دلائل مکمل ہو گئے

اسلام آباد بار کونسل کے ممبر راجہ علیم عباسی عدالت کے سامنے پیش ہو گئے،کہا کہ 209 کی موجودگی میں یہ ٹرینڈ عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچائے گا ،جسٹس جہانگیری کے پاس تین لائسنسز ہیں لوئر کورٹ ، ہائیکورٹ ، سپریم کورٹ ، آپ کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل زیر التوا ہے ، بہتر ہے یہ کسی اور بنچ کو بھیج دیں ، احمد احسن شاہ نے کہا کہ ایک جج سے بڑھ کر عدالت کا اپنا وقار اہم ہے، اسلام آباد بار کونسل کے رہنما علیم عباسی نے دلائل دینے کی کوشش کی،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس کیس میں فریق ہیں؟ راجہ علیم نے کہا کہ میں بار کونسل کا نمائندہ اور ریگولیٹر ہوں،چیف جسٹس نے کہا کہ ریگولیٹر ہونا الگ بات ہے، کیس میں فریق بننا الگ چیز، راجہ علیم عباسی نے کہا کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری تین بارز کے لائسنس رکھتے ہیں،ان کے پاس پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار اور آئی ایچ سی بار کے لائسنس موجود ہیں ،ڈگری کا معاملہ ہو تو فیصلہ بار کونسل نے کرنا ہے،آج اگر یہ نظیر قائم ہوگئی تو کل کسی کو نہیں روک سکیں گے،یونیورسٹی کچھ بھی کہے، عدالت فیصلہ نہیں دے سکتی،جج کا معاملہ جوڈیشل کونسل، وکالت کا معاملہ بار کونسل دیکھے گی،یہ ہماری ہائی کورٹ ہے، اس کا تحفظ ضروری ہے،

ڈسٹرکٹ بار کے وکیل احمد احسن شاہ پھر روسٹرم پر آگئے،چیف جسٹس نے کہا کہ یہ طریقہ نہیں، آپ کو وقت دیا جا چکا ہے، احمد حسن شاہ نے کہا کہ یونیورسٹی سے ریکارڈ طلب کرلیا تھا بار کونسلز سے بھی ریکارڈ طلب کرلیا جائے،

Shares: