ایک شفیق باپ
✍️تحریر شوکت ملک
ہر باشعور انسان کو اپنے والدین سے محبت ہوتی ہے اور وہ ان کے احسانات کا معترف ہوتا ہے۔ والدین کی دعائیں اس کی زندگی کا بہت بڑا اثاثہ ہیں جو زندگی کے نشیب و فراز کے دوران اس کے کام آتی ہیں۔ والدین اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت اور ترقی کے لیے مقدور بھر کوشش کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض والدین اپنی اولاد کی ترقی اور استحکام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اور بعض لوگ اس منظر کو دیکھے بغیر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
دوسرے بچوں کی طرح میں بھی اپنے والد محترم محرم خان (مرحوم) جو کہ مجھ سے تمام بہن بھائیوں سے زیادہ بڑھ کر پیار محبت کرتے اور سب سے زیادہ ان کی امیدوں کا محور بھی راقم الحروف کو ہی سمجھا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ میں ابتدائی تعلیم کے حصول کے لیے اپنے آبائی گاؤں کے پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا جہاں پر اساتذہ کی کمی کے باعث تعلیم کچھ اچھی نہ ہونے کی وجہ سے چھ ماہ کے قلیل عرصہ کے بعد دور دراز علاقے صادق آباد (چمچہ) کے ہائی اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ جہاں پر انتہائی محنتی اور قابل اساتذہ کرام ہونے کی وجہ سے راقم الحروف جماعت اول سے لے کر میٹرک تک پوزیشن ہولڈر رہا جس کی سب سے زیادہ خوشی میرے والد محترم کو ہوا کرتی تھی۔
اسکول میں رزلٹ کے نتائج سننے کے بعد جیسے ہی واپس گھر پہنچ کر ان کو اپنی پوزیشن بارے بتاتا تو ان کی خوشی کی انتہا ہوتی اور میرا استقبال والد محترم کے گلے لگا کر ملنے اور بوس و کنار سے ہوتا تھا اور پھر بڑے بھائیوں کو فون کال پہ انتہائی فخریہ انداز میں بتاتے کہ آپ کے چھوٹے بھائی نے کلاس میں سے پوزیشن حاصل کرکے میرا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ تاہم وہ سمجھتے تھے کہ میری آواز میں سریلا پن موجود ہے جس کے باعث وہ مجھے عالم دین بھی بنانا چاہتے تھے جو کہ بدقسمتی سے ان کا خواب میں شرمندہ تعبیر نہ کرسکا۔ میٹرک کرنے کے بعد ان کی خواہش کے عین مطابق مجھے کالج میں داخلہ دلوا دیا گیا جہاں پر جاتے ہی والد محترم جو کہ ہمارے بچپن سے ہی شوگر جیسی لاعلاج مہلک مرض میں مبتلا تھے ان کی طبیعت انتہائی ناساز ہونے لگی۔ ان کی اس قدر خرابی صحت کے بارے سوچ و فکر اور صدمے کے باعث پڑھائی سے زیادہ ان کے بارے فکر مند رہتا تھا۔
علیحدگی میں بیٹھ کر رونا پریشان رہنا میرا معمول بن چکا تھا یہی وجہ تھی کہ میں اپنی پڑھائی میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکا اور کالج میں پہلے سال ہی جب ان کی طبیعت انتہائی ناساز ہوئی ان کو راولپنڈی (British Leprosy Hospital) میں ایڈمٹ کروانا پڑا جہاں پر ان کے پاس راقم الحروف کو والد محترم سے مزید قربت اور ان کی شخصیت بارے جاننے کا موقع ملا مجھے ان کے ساتھ گزرا ہوا پل پل یاد ہے۔ مجھے یاد جب سردی کی طویل راتوں میں طبیعیت کی خرابی کے باعث ان کو نیند نہ آتی اور تکلیف ہوتی تو میں ڈاکٹروں سے لڑ پڑتا تھا کہ آپ لوگ میرے والد محترم کو کوئی معقول میڈیسن کیوں نہیں دیتے جس سے وہ سکون کی نیند سو سکیں۔
مجھے یاد ہے اسپتال میں بیڈز کی کمی کے باعث جب مجھے نیچے سونا پڑ گیا تو انہوں نے مجھے نیچے سونے سے قطعاً منع کرتے ہوئے پاس سلانے کو ترجیح دی میں ان کا بدن دباتے دباتے سو جاتا تھا۔ میں ابھی بھی سوچتا ہوں کہ نہ جانے سو جانے کے بعد میں ان کو کتنی تکلیف پہنچاتا ہوں گا تنگ کرتا ہوں گا مگر ان کی کمال کی محبت اتنی تکلیف اور خرابی صحت کے باعث بھی مجھے اپنے پاس سلانے کو ترجیح دی۔ اسپتال میں زیادہ دن ٹھہرنے کے باعث وہ سمجھتے تھے کہ بچہ ہے تنگ پڑ گیا ہو گا تو کہتے تھے جاؤ بیٹا باہر سے گھوم کے آجاؤ پر میں گاؤں میں رہنے والا پینڈو لڑکا باہر جا کے کیا کرتا بھلا وہیں ہاسپٹل کے لان میں بیٹھ کر رو رو اپنا برا حال کرتا رہتا تھا۔
وہ مجھ سے بار بار پوچھتے بیٹا تنگ تو نہیں پڑ گئے میں ان کا حوصلہ بندھانے کےلیے کہتا نہیں ابو آپ ٹھیک ہو جائیں پھر ہم ایک ساتھ گھر واپس چلے جائیں گے۔ شاید ان کو اپنی زندگی کے آخری ایام قریب آتے دکھائی دے رہے تھے تو مجھے کہتے بیٹا زندگی میں کبھی بھی ہمت مت ہارنا، جیسے بھی حالات ہوں ان کا ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کرنا، دل لگا کر پڑھنا اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا جس پر میں اور زیادہ سوچتا پریشان ہوتا گویا کہ وہ تو مجھے آخری نصحتیں کر رہے تھے۔ ڈیڑھ ماہ انتہائی اذیت میں گزرنے کے بعد بھی ان کی طبیعت میں خاطر خواہ بہتری نہ آسکی مگر ان کی خواہش کے مطابق اور اپنے آپ کو اور ہمیں سب کو حوصلہ بندھانے کےلیے کہتے اب مجھے گھر لے چلیں میں ٹھیک ہو گیا ہوں۔
گھر آنے کے بعد ان کی طبیعت میں اتار چڑھاؤ جاری رہا کبھی طبیعت ٹھیک رہتی تو کبھی طبیعت میں بگاڑ پیدا ہو جاتا اسی طرح ایک ماہ اور اسی کشمکش میں گزر گیا۔ جیسے ہی 2015ء کی شروعات ہوئی ان کی طبیعت میں پھر سے بگاڑ پیدا ہوا اتنے میں روزگار کے سلسلے میں کراچی میں مقیم بھائی بھی واپس گھر آچکے تھے انہوں نے آتے ہی والد محترم کی طبیعت میں بگاڑ کی شدت کو جانچتے ہوئے انہیں ایک بار پھر سے اسپتال میں جانے کےلیے قائل کیا جس کےلیے والد محترم بالکل رضامند نہ تھے۔
مگر حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ان کو ایک بھر اسپتال لے جایا گیا جہاں ایک روز ٹھہرنے کے بعد والد محترم نے واپس گھر لے جانے کا کہا انہیں گھر واپس لایا گیا تو 7 جنوری کا دن تھا جیسے وہ بلکل ٹھیک ہو گئے ہوں انہوں نے سب کے ساتھ کھانا کھایا اور ہم سب کو بھی کھانا کھانے کی تلقین کی گویا کہ سب کی جان میں جان آئی اور سب کے دلوں میں ان کی صحتیابی کی امید جاگ اٹھی۔ دن بھر انہوں نے سب سے خوب باتیں کی رات ہوئی تو رات کا ابتدائی پہر سکون سے گزرنے کے بعد صبح قریباً 2 بجے کے قریب ان کی طبیعت میں ایک بار پھر سے بگاڑ پیدا ہوا اس پل انہوں ایک بار پھر سے راقم الحروف کو اپنے پاس بلا کر بیٹھنے کو کہا اور کچھ آخری نصیحتیں کرنے کے بعد 8 جنوری 2015 صبح 10 بجے کے قریب 45 سال کی عمر میں ہمیں داغ مفارقت دے کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
یہ صبح ابھی بھی راقم الحروف کی آنکھوں کے سامنے منڈلاتی ہوئی صدمے سے دوچار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی گویا اس دن کے بعد سے راقم الحروف کے تمام حوصلے جو کہ والد محترم محرم خان (مرحوم) کے زیر سایہ بلندیوں کو چھو رہے تھے وہ وہیں ڈھیر ہو گئے اور والد محترم کی کمی آج عملی زندگی میں ہر موڑ پر محسوس ہوتی ہے۔ اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ جن کے والدین زندہ ہیں ان کو والدین کی صحیح معنوں میں خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ان کے والدین کا سایہ ان کے سروں پہ تادیر قائم و دائم رکھے۔ میرے والد محترم سمیت جن کے والدین اس دنیا سے رخصت فرما گئے ان کی کامل مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ آمین

Leave a reply