
تحریر: رانا شہباز نثار
آج میں سوشل میڈیا پر ایران کی ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں ایک ماں کو اپنے بیٹے کے قتل کا انصاف ملتا ہے تو میں نے معاشرتی انصاف کے بارے لکھنے کا ارادہ کیا۔ انصاف ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد ہے اور جس معاشرے کی بنیاد ہی مضبوط نہ ہو تو وہ معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا اور پاکستان میں انصاف کا نظام دوسرے ممالک سے بہت پیچھے سمجھا جاتا ہے جس میں ہماری عدلیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے انصاف فراہم کرنا صرف عدلیہ کا ہی کام نہیں بلکہ اس میں عدلیہ کے علاوہ دیگر ادارے جیسے پولیس، پراسکیوشن، وکلا برادری، جیل خانہ جات اور عوام الناس بھی شامل ہیں، وہ لوگ جن کا عدالتوں سے واسطہ پڑتا رہا ہے وہ بخوبی واقف ہوں گے کہ ہماری عدالتیں انصاف فراہم کرنے میں حالات و واقعات دیکھ کر پارٹیوں کو سن کر انصاف فراہم نہیں کرتیں بلکہ وہ تفتیش افسران کی رپورٹ، شہادتوں، وکلاء کی بحث اور سیاسی دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیتے ہیں۔ انصاف کے معاملے میں سب سے پہلے ہمارا ناقص تفتیشی نظام رکاوٹ بنتا ہے جس میں طاقتوروں کو کنٹرول حاصل ہے اگر معاشرے میں انصاف قائم کرنا ہے تو ہمیں امیر، غریب، طاقتور اور کمزور کا تصور ختم کرنا ہو گا ہر انسان کو برابر کے حقوق حاصل ہیں اور ہماری عدلیہ کو بھی انصاف کے لئے یکساں نظام بنانا ہو گا۔ میں نےایسے بہت سے کیسز پڑھے ہیں جن کے فیصلے 22، 22 یا 30، 30 سال بعد ہوئے۔ بعض ایسے بھی کیسز سامنے آئے جن میں ملزم نے 8, 10 سال جیل میں گزارے اور بعد میں اسے بے گناہ ڈکلیئر کر کے با عزت بری کا لفظ استعمال کرکے بری کر دیا گیا اس میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملزم بے گناہ تھا تو اس کی زندگی کا وہ عرصہ جو اس نے جیل میں گزارا اس کا زمہ دار کون ہے کیا عام عوام کے زندگی کا یہ وقت کوئی اہمیت نہیں رکھتا اسکی زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔ اور مجھے سب سے زیادہ دکھ ان الفاظ پر ہوا کہ اسے بے گناہ ثابت ہونے پر باعزت بری کر دیا گیا اس میں مجھے باعزت کے لفظ کی کوئی سمجھ نہیں آئی کہ دس سال قید کی مصیبتیں اٹھائیں اور معاشرے میں اس کی شہرت، عزت خراب ہوئی اس کو آپ با عزت بری کا نام دے رہے ہیں افسوس ہے اس نظام پر جس میں عام اور غریب بے گناہ کو 8, 10 سال جیل میں رکھ کر باعزت بری کیا جاتا ہے اور امیر اور طاقتور سزا یافتہ ہونے کے باوجود بھی ہمارے اوپر حکمرانی کر رہے ہوتے ہیں کہاں کا انصاف ہے یہ کہ عام آدمی کا کیس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں پڑا رہتا ہے اور امیر اور طاقتور کو 2, 4 دن میں انصاف بھی فراہم کر دیا جاتا ہے کاش کہ امیر اور غریب کے کیس کے فیصلے میں ایک ہی طریقہ کار اور وقت مقرر کیا جائے جس سے کسی غریب کو اپنی غربت کا احساس اور امیر کو اپنی امیری پر ناز نہ ہو بلکہ ہر انسان جرم کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچے کہ کہ میں اگر کسی غریب کے ساتھ ذیادتی کروں گا تو ہمارا نظام اسے انصاف فراہم کر دے گا۔ لیکن ہمارے معاشرے میں نظام اس کے برعکس ہے امیر اور طاقتور ظلم وزیادتی کرنے کے بعد بھی دندناتا پھرتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے جیسے ایران کی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک مجرم کو عام جگہ یا کسی چوک میں لا کر اس کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالا جا چکا ہے اور ایک جج مقتول کی ماں سے کئی بار منتیں کر رہا ہوتا ہے لیکن اس نے معاف نہیں کیا اور سزا پر عملدرآمد کر دیا گیا. مقتولہ کی والدہ نے قاتل کے پاؤں کے نیچے سے کرسی کھینچ لی۔……….بے اسی طرح اگر کسی طاقتور جس کو یہ ڈر ہو کہ کل ان کو پھانسی نہ ہو جائے وہ کبھی بھی کسی سے ظلم وزیادتی نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔ججوں کے لئیے بھی عبرت ہے۔۔۔۔۔۔اس کو کہتے ہیں انصاف۔۔۔۔۔اس کو کہتے ہیں عدل اس کو کہتے ہیں غیرت ۔۔ایک ماں کو انصاف ملا اب بھی وقت ہے اس زمین سے ظالم قاتل اور غاصب کو پاک کریں وگرنہ جانا اس زمین کے اندر ہی ہے ۔۔۔ ہر انسان کو پتہ ہو کی یہ یہاں کا انصاف ہے وہاں کا عذاب الگ۔اگر قاتلوں کو پھانسی نہیں دیں گے عذاب شدید سے شدید تر ہوتا جائے گا۔