آخر کب تک عورتیں اور بچے یوں ہی لٹتے رہیں گے، تحریر: عفیفہ راؤ

0
34

میں آپ کے ساتھ کچھ ایسی خبریں شئیر کروں گی کہ آپ بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ کیوں ایک انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے غیر محفوظ ہوگیا ہے۔ حکومت عوام کو مہنگائی سے بچانے میں تو ناکام ہو چکی ہے جس کے لئے اس کے پاس ایک ہزاروجوہات ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز اور پریس کانفرنسوں میں بڑے آرام سے یہ ثابت کر دیا جاتا ہے کہ ہماری پالیسیوں کی وجہ سے قیمتیں ابھی بہت کنٹرول میں ہیں ورنہ اصل قیمتیں تو اس سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتی ہیں۔ لیکن میرا سوال ان حکمرانوں سے یہ ہے کہ وہ اس ملک کی عوام کو تحفظ دینے میں ناکام کیوں ہیں؟ کیوں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ عورتیں اور بچے نہ گھروں سے باہر محفوظ ہیں اور نہ ہی اپنے گھروں کے اندر۔۔۔

اب میں آپ کے ساتھ کچھ تازہ ترین واقعات کی خبریں شئیر کروں گی جس سے آپ کو حالات کی سنگینی کا بہتر طور پر اندازہ ہو سکے گا۔ ضلع چنیوٹ کے بھوانہ سرکل میں بدفعلی کا انتہائی خوفناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک دس سالہ یتیم بچے کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی گئی۔ اور زیادتی کرنے والے کوئی دو یا تین فرد نہیں تھے بلکہ سترہ افراد کا ایک پورا گروہ تھا جس نے اس معصوم بچے کے ساتھ یہ حیوانیت اور درندگی کی۔اس بچے کا والد دو سال پہلے فوت ہو چکا ہے اور وہ اپنے ماموں کے زیر کفالت ہے اب ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ شام تقریبا سات بجے تین فرد آئے اور اس بچے کو گھر سے بلا کر موٹر سائیکل پر باہر لے گئے۔ فصلوں میں لے جا کر رسیوں سے باندھ دیا۔ جس کے بعد یہ باری باری اس دس سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کرتے رہے اور ساتھ میں موبائل فون پر ویڈیو بھی بناتے رہے۔ اور یہ سلسلہ پچھلے کئی دنوں جاری تھا کہ درندوں کا یہ گروپ اس یتیم بچے کو بلیک میل کرکے مختلف اوقات میں اس کے ساتھ بدفعلی کرتے رہے۔جب اس متاثرہ بچے کے گھر والوں کو اس سب کا علم ہوا تو انہوں نے تھانہ بھوانہ میں مقدمہ درج کروایا ہے۔ ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے مار رہی ہے لیکن ابھی تک اس پورے گروپ میں سے کوئی ایک ملزم بھی گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ اس کے علاوہ ایک اور تھانہ سٹی سمندری کے علاقہ زم زم کالونی کے رہائشی احسن نے بھی مقدمہ درج ہوا ہے جس کے مطابق ایک 14 سالہ لڑکے کو 22 سالہ ملزم نے زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ان واقعات کے بارے میں آپ ہو سکتا ہے کہ سوچ رہے ہوں کہ شاید یہ چھوٹے علاقے ہیں اس لئے وہاں کے حالات خراب ہیں وہاں کی پولیس بھی اتنی Efficientنہیں ہے۔ تو اب میں آپ کو لاہور شہر کا ایک واقعہ بتاتا ہوں جہاں ہوٹل کے اندر ایک لڑکی کے ساتھ 7 روز تک اجتماعی زیادتی کی جاتی رہی۔ سوچیں یہ لاہور شہر ہے جس میں ابھی حالیہ چودہ اگست کے واقعات کے بعد پولیس کافی الرٹ ہے اور پھر بھی اس طرح کے واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ملت پارک میں ایک ہوٹل کے اندر لڑکی کو ایک تقریب کا جھانسہ دیکر بلایا گیا اس کے بعد سات روز تک اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا اس سے چھ لاکھ روپے بھی چھین لئے گئے۔ لیکن ہوٹل میں اتنے دن تک کسی کا کان و کان خبر نہیں ہوئی کہ بر وقت پولیس کو اطلاع دی جاتی لیکن خیر بتایا یہ جا رہا ہے کہ اس عورت کی شکایت کے بعد تین میں سے ایک ملزم کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔اس کے علاوہ لاہور شہر کا ہی ایک اور واقعہ ہے کہ لاہور کے علاقے لیاقت آباد میں ملزم نے ایک عورت کو اس کی کم سن بیٹی کے سامنے ہی گن پوائنٹ پر زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔اور یہ سب کرنے والا ملزم دراصل ان کا ہمسایہ تھا جو پہلے تو ماں بیٹی پر جسم فروشی کرنے کے لیے دباؤ ڈالتا رہا لیکن خاتون کے انکار پر ملزم نے اس عورت کے ساتھ زیادتی کر ڈالی۔ یہاں تک کہ ملزم نے اس عورت کی تیرہ سالہ بیٹی کو بھی زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔لاہور کا ہی ایک اورحیرت انگیز واقعہ میں آپ کو بتاوں جس میں بے حیائی کی تمام حدیں ہی پار کردی گئیں۔ گلشن راوی کے علاقے میں ایک ستائیس سالہ لڑکی اپنے گھر کی چھت پر کپڑے سکھانے کے لئے ڈال رہی تھی اس دوران اس کا ہمسایہ اپنے گھر کی چھت پر برہنہ ہوگیا اوراس لڑکی کو ہراساں کرتا رہا۔پولیس کے مطابق اس ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ لیکن اس سے ایک روز پہلے بھی گلشن راوی کے علاقے میں ایک لڑکی کو نوجوان نے اسی طرح برہنہ ہوکر ہراساں کیا تھا جس کا ملزم سی سی ٹی وی فوٹیج کے باوجود ابھی تک پولیس کی گرفت میں نہیں آ سکا۔

اس طرح کے واقعات آئے روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ ان واقعات میں ایک طرف تو لوگ اپنے علاقے والوں اور ہمسایوں کے ہاتھوں غیر محفوظ ہیں لیکن کچھ ایسے واقعات بھی آجکل سامنے آ رہے ہیں جس میں بچیاں اپنے سگے اور قریبی رشتے داروں سے بھی محفوظ نہیں ہیں۔راولپنڈی کے ایک علاقے میں ماں نے عین موقع پر پہنچ کراپنی 5 سالہ بیٹی کو اس کے چچا کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہونے سے بچا لیامتاثرہ بچی کی ماں نے پولیس کو بتایا کہ وہ ہمسائی سے ملنے کے لئے پڑوس میں گئی تھی لیکن جب واپس پہنچی تو آ کر دیکھا کہ اس کا دیوراس کی بیٹی سے زیادتی کی کوشش کر رہا تھا۔ ماں کے شور کرنے پر اس کی یہ کوشش ناکام ہو گئی اب سے دو دن پہلے شیخوپوہ میں بھی انتہائی ایک دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا۔ جہاں ایک کمسن بچی ایک درندے کی درندگی کا نشانہ بن گئی۔پولیس کے مطابق شیخوپورہ میں 6 سالہ ہادیہ محلے میں موجود دوکان پر چیز لینے گئی جہاں سے اسے اغوا کر لیا گیا۔ اور یہ سب کرنے والا اور کوئی نہیں بلکہ وہ دوکاندار ہی تھا اس نے بچی کو اغواء کرکے اپنی حوس کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد اسے قتل بھی کرڈالا۔ اور درندے نے اپنا جرم مٹانے کے لئے بچی کی لاش کو نہر میں پھینک دیا۔اس کے علاوہ شیخوپورہ کے ہی ایک علاقے میں ڈکیتی کے دوران ڈاکوں نے ماں باپ کے سامنے انکی حافظ قرآن بیٹی کے ساتھ زیادتی کر ڈالی۔تین ڈاکوں ڈکیتی کی واردات کے لئے رات گئے گھر میں گھس گئے کاشتکار کے گھر سے نقدی اور زیورات لوٹ کر لے گئے اور ساتھ ہی والدین کو رسیوں سے باندھ کر انکے سامنے ان کی عالمہ اور حافظہ بیٹی کو اجتماعی نشانہ بنایا۔ ان تمام واقعات میں سے ایک یا دو ایسے ہیں جن کے ملزمان کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے اور تفتیش ہو رہی ہے لیکن میرا سوال پھر بھی یہی ہے کہ آخر کیوں ہماری حکوت اور پولیس اپنے شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام کیوں ہے؟ کیوں یہ درندے دن بہ دن اتنے بےخوف ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کی وجہ سے عورتوں اور بچوں کی نہ تو عزتیں محفوظ ہیں اور نہ ہی جانیں۔۔۔ساتھ ہی ساتھ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ اگر ہماری پولیس ان درندوں کو پکڑ بھی لے تو ہمارا عدالتی نظام ایسا نہیں ہے کہ ان کو فوری سزا سنائی جائے۔ جس کی وجہ سے سالوں سال کے لئے نہ صرف کیسسز لٹک جاتے ہیں بلکہ مظلوم کو بھی تھکا ڈالتے ہیں۔ جبکہ زیادہ تر تو یہ مجرمان اپنے اثرو رسوخ کی وجہ سے کچھ ہی عرصے بعد پولیس کی قید سے بھی رہائی حاصل کر لیتے ہیں اور باہر آ کر پھر اسی گھناونے جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں۔

اس لئے میرا تو ان حکمرانوں سے یہی کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مہنگائی آپ کے کنٹرول سے باہر ہو عالمی منڈی میں بڑھتی قیمتیں آپ کو اپنے ملک میں چیزیں سستی کرنے سے روک رہی ہوں لیکن خدارہ انسانوں کی عزتیں اور ان کی جانیں اتنی سستی نہیں ہیں۔۔۔ آخر اس میں آپ کی ایسی کیا مجبوریاں ہیں کہ لوگوں کو نہ تو تحفظ مل رہا ہے اور نہ ہی انصاف۔۔ آخر کب تک عورتیں اور بچے یوں ہی لٹتے رہیں گے اور اپنی عزتوں اور جانوں سے ہاتھ دھوتے رہیں گے آخر کب تک۔۔۔

Leave a reply