عالمی بلیو اکانومی 24 ٹریلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی صلاحیت کی حامل ہے ،وزیر خارجہ

0
29

عالمی بلیو اکانومی 24 ٹریلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی صلاحیت کی حامل ہے ،وزیر خارجہ

وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بلیو اکانومی کو علاقائی معاشی ترقی کا محورومرکز بنانے کے لئے ضرورت ہے۔پ اکستان دنیا کے سمندروں کو محفوظ بنانے کی اہمیت کا مکمل ادراک رکھتا ہے، اس نیک مقصد کے لئے تمام دوست ممالک اور دنیا بھر میں پارٹنرز کے ساتھ تعاون اور اشتراک عمل کے لئے تیارہیں۔ عالمی بلیو اکانومی 24 ٹریلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی صلاحیت کی حامل ہے ۔پاکستان میں سمندری سیاحت معیشت میں 4 ارب امریکی ڈالر کا حصہ ڈال سکتی ہے۔ سی پیک اور گوادر بندرگاہ کی ترقی گیم چینجر منصوبے ہیں۔ جنوبی ایشیاءمیں کسی قسم کا فوجی تنازعہ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کردے گا۔

منگل کو کراچی میں بین الاقوامی میری ٹائم کانفرنس (آئی۔ایم۔سی۔2021) سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے پاک بحریہ کو مبارک دیتے ہوئے کہاکہ 2007 سے ہر دوسال کی ترتیب سے وہ ’امن‘ کے نام سے کثیرالملکی مشقوں کی مسلسل میزبانی کا اعزاز حاصل کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2007 کے مقابلے میں ان بحری مشقوں میں حصہ لینے والے ممالک کی بحریہ کی تعداد 28 سے بڑھ کر اس سال 40 سے زائد تک پہنچ چکی ہے۔ ان مشقوں کا کامیاب انعقاد عالمی امن وسلامتی کے فروغ کے لئے پاکستان کے عہد اور کاوشوں کا مظہر ہہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ’نیلے پانیوں کی معیشت‘ نسبتا ایک نیا تصور ہے۔ یہ سمندروں اور بحیروں کی سماجی ومعاشی ترقی میں کارگر ہونے کی اہمیت سے روشناس کراتا ہے۔ پائیدار بلیو اکانومی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے فائدے پر مبنی سماجی ومعاشی ثمرات کے حصول کے لئے کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق عالمی بلیو اکانومی 24 ٹریلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی صلاحیت کی حامل ہے۔مزید برآں اس کے اس خطے پر آنے والی دہائیوں میں بے پناہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ایشیاءمیں بڑھتی ہوئی خوشحالی، قدرتی وسائل کے بہاو پر بڑھتے ہوئے انحصار سے مشرق وسطی، افریقہ اور ایشیائی میں پیداواری افراد کے صارفین سے رابطوں کی استواری، اشیاءکی فراہمی و ترسیل کے عالمی نظام سے خطے میں فاصلے مزید کم ہوگئے ہیں۔بحر ہند باہمی تعاون اور اشتراک عمل کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے لیکن جیو سٹرٹیجک مسابقت اور بعض ممالک کے فوجی غلبہ پانے کی خواہش نے اس صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔خاص طورپر انتہائ پسند ہندتوا سوچ کے زیراثر بھارت کے جنگی جنون اور جارحانہ پالیسیز نے عالمی وعلاقائی امن وسلامتی کے لئے فوری اور دائمی خطرات لاحق کررکھے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ تسلط پسندانہ عزائم کے نتیجے میں بھارت نے بحرہند کو جوہری خطرات سے دوچار کیا ہوا ہے اور بحری جنگی سامان حرب میں جدید جنگی نظام اور جوہری مواد لیجانے والے ہتھیار نصب کررہا ہے۔جس کے پیش نظر پاکستان کم ازکم دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے تاکہ سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے تمام ضروری پیش بندی کرے۔عالمی برادری کو اس حقیقت کو محسوس کرنا ہوگا کہ جنوبی ایشیائی میں کسی قسم کا فوجی تنازعہ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کردے گا جس سے عالمی تجارت اور سلامتی کو گزند پہنچنے کا احتمال ہو سکتا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ایک ہزار کلومیٹر ساحلی پٹی اور وسیع مخصوص معاشی زون کی بدولت پاکستان ایک اہم بحری ریاست ہے۔ پاکستان کی بحری خودمختاری دو لاکھ نوے ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے جو مین لینڈ کا تقریبا 36.4 فیصد ہے۔پاکستان کے بحری علاقے حیاتیاتی اور غیرجانبدار وسائل سے بھرے ہوئے ہیں۔ پاکستان بحرہند کے سکیورٹی فریم ورک میں ایک اہم فریق اور حصہ دار ہے جس میں بحری قزاقی کے خاتمے، انسانی اور منشیات کی سمنگلنگ کی روک تھام جیسے امور شامل ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ پاک بحریہ پاکستان کے ساحل اور علاقائی سمندروں میں سلامتی کو درپیش خطرات سے موثر انداز میں نمٹ رہی ہے تاکہ بحری راستوں کو غیرقانونی سرگرمیوں اور مذموم عزائم رکھنے والے عناصرسے پاک رکھا جائے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ امن وسلامتی کے فروغ کی کوششوں کی بناء پر پاک بحریہ کی ہمیشہ تحسین ہوئی ہے۔ عالمی اور علاقائی میری ٹائم سکیورٹی کے وسیع تر مفاد میں دیگر کے علاوہ ہماری بحریہ نے مشترکہ ٹاسک فورس 150 اور 151 میں فعال طورپر حصہ لیا ہے۔ہماری بحریہ نے گہرے سمندروں میں مشکلات کا سامنا کرنے والے بحری جہازوں کو گرا نقدر معاونت فراہم کی ہے جس میں بحری قزاقوں کے خلاف کارروائیاں اور متعدد مواقع پر علاقائی ممالک کی انسانی بنیادوں پر مدد شامل ہے۔انہی کاوشوں کی ایک مثال ہماری بحریہ کے ایک جہاز کی افریقہ میں انسانی بنیادوں پر امدادی سامان پہنچانے کے لئے مشن پر روانگی بھی ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور گوادر بندرگاہ کی ترقی گیم چینجر منصوبے ہیں جن سے پاکستان کی جیو اکنامک اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔گوادر بندرگارہ ایک سٹرٹیجک اہمیت کے حامل مقام پر واقع ہے جو آبنائے ہرموز اور شمالی بحرعرب کے سنگم پر ہے۔ گوادر بندرگارہ علاقائی مرکز اور ٹرانس شپمنٹ بندرگاہ کے طورپر استعمال ہونے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔اس لحاظ سے پاکستان ایسے سنگم پر واقع ہے جو اپنے ساحل سے محروم وسطی ایشیائی ریاستوں کو سمندری راستوں سے جوڑتا ہے تاکہ وہ اپنا تیل، کوئلہ اور زرعی اجناس کی نقل و حرکت کو آسان بنا سکیں۔گوادر بندرگاہ کاروبار کے نئے امکانات پیش کرتی ہے۔ جان بچانے والی ادویات سے سمندری سیاحت، ساحل کے ساتھ زمین اور جائیداد کی ترقی اور صنعتوں کا فروغ ایسے شعبے ہیں جو ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری کے لئے پرکشش شعبے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان لائنر شپنگ روابط کے انڈیکس میں (آسٹریلیا کے مقابلے میں) خاصا بہتر ہے۔ ہمارے میری ٹائم شعبے کے لئے خاطرخواہ سرمایہ کاری درکار ہے تاکہ تعمیرات ہوسکیں، اسے چلانے اور نفع بڑھانے میں مدد مل سکے۔ تاہم یہ شعبہ ریونیو دینے میں ابھی خاصا پیچھے ہے۔ اس اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہماری حکومت نے میری ٹائم کے شعبے کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اسے ترقی دینے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ہم نے پاکستان کی بندرگاہوں کو علاقائی ٹرانس شپمنٹس کے لئے بروئے کار لانے کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں جن میں بندرگاہوں کا انفراسٹرکچر بہتر بنانا بھی شامل ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ 2020 کو ’نیلے پانیوں کی معیشت“ کا سال قراردیا گیا جو ہماری حکومت کی جانب سے اس شعبے کی بھرپور صلاحیت کو اجاگر کرنے کے لئے ایک کاوش تھی تاکہ اس صلاحیت کو ملک میں پائیدار ترقی اور معاشی شرح نمو میں اضافے کے لئے بروئے کار لایاجاسکے۔بندرگاہوں اور جہاز رانی کی سابقہ وزارت کو وزارت میری ٹائم کی نئی شناخت دی گئی ہے تاکہ اس کی سرگرمیوں اور دائرہ کار کو وسعت دی جائے۔وزیر کا خارجہ نے بعض شعبہ جات کی نشاندہی کی جن سے اب تک صرف نظر کیاگیا ہے،ان کے مطابق ماہی گیری کا شعبہ ملکی جی ڈی پی میں صرف 0.4 فیصد ہی حصہ ڈالتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں سمندری سیاحت معیشت میں 4 ارب امریکی ڈالر کا حصہ ڈال سکتی ہے لیکن سردست اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

Leave a reply