آلودہ پانی دہشت گردی سے بھی خطرناک .تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

اللہ رب العزت نے انسانوں بلکہ کائنات کی تمام مخلوق کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے "اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کر سکو گے”۔نعمتوں کا احسا س و لذت اس کی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے۔ پانی کے بغیر زندگی ممکن ہی نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے ” اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان نہ لائیں گے” قرآن میں ایک اور جگہ فرمایا”اور اللہ نے زمین پر ہرچلنے والا پانی سے بنایا تو ان میں کوئی اپنے پیٹ پر چلتاہے اور ان میں کوئی دو پائوں پر چلتا ہے اور ان ہی میں کوئی چار پائوں پر چلتاہے۔ اللہ بناتا ہے جو چاہے،بے شک اللہ سب کچھ کر سکتاہے”۔زمین پر جتنے بھی جاندار ہیں خواہ انسان ہوں یا دوسری مخلوق ان سب کی زندگی کاانحصارپانی پرہے۔

پاکستان پانی کی کھپت کے لحاظ سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے جبکہ اس کی آبادی عالمی سطح پر پانچویں نمبر پر ہے پانی کی شدید قلت کا شکار ممالک کی فہرست میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو تیسرے نمبر پر رکھاہے جبکہ دیگر عالمی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ سن 2025 تک یہ ملک مکمل طور پر خشک سالی کاشکار ہوجائے گا۔اس وقت پاکستان کی بیشتر آبادی کو پینے کاصاف پانی میسر نہیں ہے تاہم کسی بھی حکومت نے اس چیلنج یا تلخ حقیقت کا نوٹس نہیں لیا اورعوام کی اس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے میں ناکامی نے زندگیوں اور صحت کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق دوتہائی پاکستانی عوام پینے کے صاف پانی سے محروم ہے ، جس کی وجہ سے عوام میں موذی بیماریاں پھیلنے کے خطرات اور بڑھ گئے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ افراد جن میں سے آدھے بچے ہوتے ہیںپانی سے پیدا ہونے والی خطرناک بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیںیہ نہ تو دہشت گردی ہے اور نہ ہی قدرتی آفات ہیں بلکہ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں اموات کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق آلودہ پانی کے استعمال سے ہر سال ملک بھر میں 40 فیصد اموات ہوتی ہیں۔ صنعتی فضلہ ، تباہ شدہ سیوریج سسٹم اورسیوریج کے آلودہ پانی سے فصلات اورسزیوں کی کاشت اور منصوبہ بندی کے بغیرشہروں کے پھیلائونے پچھلے کئی سالوں سے خاص طور پر بڑے شہروں میں پانی کے معیار اور مقدار کو گھٹا دیا ہے، ملک کے بیشتردور دراز علاقوں خاص طورپرسندھ اوربلوچستان میں لوگوں کو پینے کا پانی لانے کے لئے کئی میل سفر کرنا پڑتا ہے۔پہاڑی اور صحرا ئی علاقوں میں رہائش پذیرعوام پانی کے لئے بارش پر انحصار کرتے ہیں ، انسان اور جانور ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ وزارت صحت اور یونیسف کے اعدادوشمار کے مطابق ہرسال پاکستان میں100000 سے زائدافرادآلودہ پانی پینے کی وجہ سے مختلف بیماریوں کاشکارہوکرہلاک ہوجاتے ہیں،

ہر سال 10 سال سے کم عمر کے 50000 سے زائد بچے ہیضہ ، اسہال ، پیچش ، ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائڈ جیسی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے مر جاتے ہیں۔ماہرین کاکہنا ہے کہ پانی میںبڑی مقدارمیں آرسینک کی موجودگی کی وجہ سے شوگر ، جلد ، گردے ، دل کی بیماریوں ، ہائی بلڈ پریشر ، پیدائشی نقائص اور متعددقسم کے کینسر کا باعث بھی ہے۔ صفائی کے ناقص نظام ،بروقت پانی کی ٹریٹمنٹ اور نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے پینے کے پانی کا معیار خراب ہوتا جارہاہے۔ پینے کے پانی میں زہریلے کیمیکلز اور بیکٹیریا کی موجودگی انسانی صحت پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ آلودہ پانی پینے کی وجہ سے لوگ پیٹ کی بہت سی خطرناک بیماریوں میں مبتلاہیں دوسری طرف حکومت نے پہلے سے موجود پینے کے صاف پانی سے متعلق پلانٹس کی بحالی پرکوئی توجہ نہیں دی،اور مناسب کام کرنے اور سنبھالنے کے لئے عملی طورپر کوئی کارروائی نہیں کی گئی ،پاکستان کے شہری علاقوں میں پینے کے صاف پانی اور پینے کے لئے موزوں ہونے کو یقینی بنانے کیلئے ٹریٹمنٹ پلانٹوں سے نمونے لینے کاکوئی مناسب نظام نہیںہے۔ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلا ئوکو روکنے اورمعیار کوبرقراررکھنے کیلئے سال میںدوبار پانی کے نمونے لیکرانہیں ٹیسٹ کرنے کی روایت پاکستان میں موجود نہیں ہے کیونکہ افسرشاہی اپنی لالچ اورخودغرضی کی وجہ سے واٹرمافیاء سے ملاہواہے جن کی وجہ سے بروقت ٹیسٹنگ کانظام ناکام ہوچکاہے،پیتھوجینز کو مارنے اورپانی کی کلورینیشن کاعمل نہ ہونے کے برابر ہے۔پاکستان میں پینے کے پانی کے معیار کے تجزیہ کے لئے جدید ترین اور قابل اعتماد آلات اور تربیت یافتہ سٹاف کی بہت کمی ہے جس پر کسی بھی حکومت نے آج تک توجہ نہیں دی۔پاکستان میں ایسی صنعتیں بہت کم ہیں جنہوں نے گندے پانی کو صاف کرکے قابل استعمال بنانے کیلئے WaterTreatmentپلانٹ لگائے ہوں ۔ حکومت کو چاہئے کہ 1997 کے ایکٹ کے تحت NEQS کے مطابق ان کے صنعتی آلودگی سے نمٹنے کے لئے سخت کارروائی کرے۔ اگر کوئی صنعت قواعد کی خلاف ورزی کرتی ہوئی پائی جاتی ہے تو اسے بھاری جرمانے اور قید کی سزا بھی دی جانی چاہئے۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم شہریوں کی ہلاکت کی خبریں تومین سٹریم میڈیا اورسوشل میڈیا پر زورشورسے چلائی جاتی ہیں ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں عوام کوانتہائی خوفزدہ کیاجاتاہے(ہم یہ نہیں کہتے کہ دہشت گردوں سے متعلق خبریں عوام کے سامنے نہ لائیں)حالانکہ ان دہشت گردوں کے حملوں کے نتیجے میں بہت سی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیںاورمالی نقصان بھی کہیں زیادہ ہوتاہے،دہشت گردی کے برعکس پاکستان میں آلودہ پانی پینے سے پیداہونے والی بیماریوں سے ایک لاکھ سے زائدلوگوں کی ہلاکت دہشت گردی سے زیادہ خطرناک نہیں ہے؟ جبکہ عالمی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ 2025 ء تک پاکستان مکمل طور پرخشک سالی کاشکارہوکرخانہ جنگی کی طرف جاسکتا ہے، اگرحکومت ملک کوتباہی اورانتشار سے بچاناچاہتی ہے تو صورتحال کاازسرنوع جائزہ لیناچاہئے ،پانی کے نظام میں بہتری ، صفائی ستھرائی اوربنیادی ڈھانچے کی ترقی کیلئے ابھی سے کام شروع کردے ورنہ آلودہ پانی کااژدہا دہشت گردی کی لعنت سے بھی زیادہ خطرناک پھن پھیلائے کھڑاہے۔

Leave a reply