مزید دیکھیں

مقبول

بڑھتے درجہ حرارت سے عام فرد کی دولت میں 40 فیصد تک کمی آسکتی ہے،ماہرین

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر درجہ حرارت میں 4 ڈگری سیلسیس اضافہ ہوتا ہے تو ایک عام فرد کی دولت میں 40 فیصد تک کمی آسکتی ہے، جو پہلے کے اندازوں کے مقابلے میں تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔

باغی ٹی وی : سائنسی جریدے ”Environmental Research Letters“ میں شائع تحقیق میں آسٹریلیا کے سائنسدانوں کی ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ عالمی حدت کے معیشت پر اثرات کو اب تک بہت کم اندازہ لگایا گیا تھا اس تحقیق کے مطابق، اگر درجہ حرارت میں 4 ڈگری سیلسیس اضافہ ہوتا ہے تو ایک عام فرد کی دولت میں 40 فیصد تک کمی آسکتی ہے، جو پہلے کے اندازوں کے مقابلے میں تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔

تحقیق میں یہ بھی پیش گوئی کی گئی ہے کہ اگر درجہ حرارت میں صرف 2 ڈگری سیلسیس اضافہ ہوتا ہے تو عالمی جی ڈی پی فی کس میں 16 فیصد کمی ہو سکتی ہے، جو پہلے کے 1.4 فیصد کے تخمینے سے کہیں زیادہ ہے،یہ تحقیق اقتصادی ماڈلز میں ایک اہم خامی کی نشاند ہی کرتی ہے جو عالمی ماحولیاتی پالیسی کی بنیاد ہے اور اس سے کاربن کے سابقہ معیارات پر بھی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔

پنجاب پولیس کی خاتون افسر نے عالمی اعزاز اپنے نام کرلیا

تحقیق کے مطابق اگر تمام ممالک اپنے قریبی اور طویل مدتی ماحولیاتی اہداف حاصل بھی کر لیتے ہیں، تب بھی عالمی درجہ حرارت میں 2.1 ڈگری سیلسیس تک اضافہ متوقع ہے یہ خطرناک پیش گوئیاں عالمی اقتصادی استحکام اور دنیا بھر میں افراد کی دولت پر موسمیاتی تبدیلیو ں کے سنگین اثرات کو اجاگر کرتی ہیں۔

نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈی پٹ مین، جو تحقیق کے شریک مصنف بھی ہیں، انہوں نے ”دی گارڈین“ سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب معاملہ شدت اختیار کرتا ہے تو اصل نقصان سامنے آتا ہے، یہ صرف اوسط درجہ حرارت کی بات نہیں ہے ممالک کو اپنی اقتصادی کمزوریوں کا درست اندازہ لگانے اور اخراج کو کم کرنے کے لیے، اقتصادی ماڈلز کو موسمیاتی شدت اور اس کے سپلائی چینز پر اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ازسر نو مرتب کرنا ہوگا۔

عامر خان کی سابقہ دونوں اہلیہ کی ایک ساتھ عید منانے کی تصاویر وائرل

کچھ ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ عالمی حدت کے اثرات جزوی طور پر کچھ ٹھنڈے علاقوں، جیسے کہ کینیڈا، روس اور شمالی یورپ میں فائدہ پہنچا سکتے ہیں لیکن ماہر نیل کا کہنا ہے کہ عالمی تجارت کے ذریعے تمام معیشتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، لہٰذا اس کا نقصان ہر ملک کو ہوگا۔

آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے ماحولیاتی پالیسی کے ماہر پروفیسر فرینک جوزو، جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے، ان کا کہنا تھا کہ معیاری ماڈلز فرض کرتے ہیں کہ اگر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کسی علاقے میں زراعت ممکن نہیں رہے گی، تو دنیا کے کسی دوسرے حصے میں اس کی پیداوار میں اضافہ ہو جائے گا۔

سیف علی خان حملہ کیس،ملزم کی درخواست ضمانت پر نوٹس جاری

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ ماڈلز یہ تاثر دیتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں عالمی معیشت پر کوئی بڑا اثر نہیں ڈالیں گی، جو کہ حقیقت میں فزیکل امپیکٹ سائنس اور اقتصادی باہمی انحصار کی بہتر تفہیم کے برخلاف ہےیہ تحقیق دنیا بھر کے ممالک کو خبردار کر رہی ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اقتصادی اثرات کو سنجیدگی سے لیں اور اپنے ماحولیاتی اہداف پر فوری عمل کریں۔