آؤ کچھ نیا کر جائیں — انجنئیر ظفر اقبال وٹو

0
67

اس سال سیلاب کی تباہی سے اگر کوئی ایک اہم سبق سیکھا جا سکتا ہے تو وہ ہے۔۔۔“وقت سے پہلے تیاری”۔۔۔۔تاہم اب تک این ڈی ایم اے، فیڈرل فلڈ کمیشن یا واپڈا سمیت کوئی بھی ادارہ بارش یا سیلابی پانی کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کرکے مستقبل کی پیش بندی کے لئےکسی بھی قسم کی مفید اور فوری قابل استعمال معلومات سامنے نہیں لائے۔ محکمہ موسمیات بھی ڈیٹا بیچنے کے چکر سے نکل کر مفاد عامہ کے لئے اسے پبلک اور قابل رسائی نہیں کرسکا۔

دوسری طرف سیلابی نظام معیشت خوب پھل پھول رہا ہے۔ نقصانات کے اعدادوشمار 30 ارب ڈالر کا ہندسہ بتا رہے ہیں۔ ساہوکار خوش نما عالمی بنکوں اور مالیاتی اداروں کے روپ میں قرض دینے کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں اور ہماری پٹاری میں اس قرض کو خرچ کرنے کے لئے کوئی قابل عمل منصوبے نہیں۔ الماریوں میں کئی سالوں سے پڑے پی سی ون کی جھاڑ پونچھ کرکے کنکریٹ، مٹی اور پتھر سے بننے والے منصوبوں پر قرض کی رقم خرچ کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔تاہم عوامی بھلائی کے لئے اہم منصوبوں کا فقدان ہے جن پر اصل توجہ ہونی چاہیے۔

غیر معمولی سیلاب سے ہونے والی تباہی ہم سے کچھ نیا کرنے کو مانگتی ہے کیونکہ ایسے حالات میں معمول کی ترکیبیں یا اقدامات کام نہیں آئیں گے۔

۱-سیلاب کا پیشگی اطلاعاتی اور فوری ردعمل کا نظام

زلزلے یا کووڈ کے برعکس سیلاب ایک ایسی قدرتی آفت ہے جس کی اب جدید نظام پیمائش کے ذریعے قبل از وقت پیش گوئی کرنا ممکن ہے۔ بہت سے کمپیوٹر ماڈل اور سیٹیلائٹ ڈیٹا نے اس کو ممکن بنا دیا ہے۔ خود ہمارے ہاں محکمہُ موسمیات اس سال طوفانی اور سیلابی صورت حال کی پیش گوئی دو ماہ پہلے ہی مئی کے اوائل میں کر چکا تھا۔تاہم یہ ایک بہت سطحی انداز میں کی گئی اور متعلقہ ادارے ملک میں جاری سیاسی کشمکش کے مزے لینے میں مصروف تھے اور اس سے صرف نظر کر گئے۔پاکستان میں ایسا نظام دریائی سیلاب کی پیشگوئی کے لئے تو کسی حد تک کام کر رہا ہے لیکن دریائی نظام سے باہر اس کا وجود نہیں۔ اس سال کوہ سلیمان، کیرتھر رینج اور شمال مغربی بلوچستان سیلاب کا نشانہ تھے جو کہ انڈس روور سسٹم باہر ہیں۔

۲- محکمہ موسمیات کے نظام پیمائش کو جدید بنانا اور اس کی پہنچ کو بہتر بنانا

محکمہ موسمیات کے پاس موجود بیش تر ریڈار اور آلات وقت سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ جب کہ دنیا میں اس وقت سیٹیلائٹ ٹیکنالوجی سے کئی ماہ پہلے موسمیاتی پیش گوئی کرنا ممکن ہوچکا لیکن ہمارے ہاں کوہ سلیمان اور شمالی بلوچستان کی سیلابی بارشوں کو وقت سے پہلے نہ پکڑا جاسکا۔ ژوب کے بعد محکمے کا اگلا موسمیاتی اسٹیشن ہی تین سو کلومیٹر دور کوئٹہ یا بارکھان میں ہے جب کہ سیلابی تباہی درمیان میں قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، پشین، لورالائی اور ہرنائی وغیرہ میں ہوتی رہی۔لہذا موسمیاتی اسٹیشنوں کا نیٹ ورک بڑھانا ہوگا اور عوامی مفاد میں پچھلے ۷۵ سالوں کا موسمیاتی ڈیٹا پبلک اور فری اور ہر کسی کے لئے قابل رسائی کرنا ہوگا۔

۳- ملکی سطح پر فلڈ میپنگ ، فلڈ زوننگ اور فلڈ زون بائی لاز

ملک کےسیلابی علاقوں کی نقشہ بندی کرکے آفت کی صورت میں محفوظ پناہ کے علاقے تلاشنے ہوں گے۔پورے ملک کی فلڈ زوننگ ہونی چاہئے اور تمام انفراسٹرکچر منصوبوں کے لئے فلڈ زون بائی لاز بننے چاہئیں۔ تمام انفراسٹرکچر منصوبے بشمول سڑکیں پانی دوست بنانا ہوں گے۔ سیلابی پانیوں کو راستہ دینا ہوگا اور ان کی راہ میں ہر قسم کی رکاوٹوں کو ختم کرنا ہوگا۔ سیلاب کے بعد کھڑے ہونے والے پانی کی نکاسی کے مقامی پلان بنانے ہوں اور ان سب کاموں میں معیشت کو مضبوط کرنے کے بے انتہا مواقع چھپے ہوئے ہیں۔

۴۔ قدرتی آفات سے بچاو کے اداروں کا مقامی سطح تک پھیلاؤ

قدرتی آفات سے بچاو کے اداروں کا نظام کم ازکم تحصیل یا ٹاون کی سطح پر فوری طور پر استوار کیا جائے۔ یہ کام جتنا زیادہ سے زیادہ مقامی سطح پر ہوگا،اتناموثر ہوگا۔ مرکز یا صوبوں کی سطح پر قائم ادارے فوری اور موثر رد عمل نہیں دے سکتے۔

۵۔آفت سے پہلے بچاو کا انتظام

خیمہ بستی والی اونچی جگہوں پر ایمرجنسی میں چند گھنٹے کے نوٹس پر خیمہ بستی قائم کرنے کا بندوبست، خوراک ادویات اور مشینری وقت سے پہلے موجود ہو مستقبل کی آفت کی تیاری کے عمل میں مقامی تربیت یافتہ لوگ اور رفاہی تنظمیں ریڑھ کی ہڈی ہیں جو آگے بڑھ کر مقامی طور پر لوگوں کی ذہن سازی، عوامی بیداری اور آفت سے پہلے بچاو کے پروگراموں کو عوام میں کامیاب بنا سکتے ہیں۔

۶-فلڈ ریسکیو اینڈ ریلیف ایپ

آئی ٹی کی جدت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی ایپ لانچ کی جائے جوکہ سیلابی صورت حال سے وقت سے پہلے آگاہ کرسکے اور پانی سے بچاو کے لئے راہنمائی کرے۔ اس ایپ میں تمام نشیبی علاقوں اور پناہ گاہوں کی نہ صرف نشاندہی ہو بلکہ اس علاقے میں کام کرنے والی تمام فلاحی تنظیموں اور محکموں کی معلومات اور آن لائن روابط ہوں اور ریسکیو کے لئے موجود لوگوں اور کشتیوں کی لوکیشن اوبر اور کریم طرز پر آرہی ہو اور قریب ترین کشتی کو بلا کر ریسکیو کیا جائے۔ اس سلسلے میں کسی بھی مناسب پروپوزل کو گوگل میپ، اوبر ، کریم اور فیس بک یقیناً سپورٹ کریں گے۔

۷- سیلاب موافق عمارتیں

سیلابی پانی سے بچاو کرنے والے گھر بنائے جائیں جوکہ سیلابی پانی کی سطح سے اونچے ہوں۔ اس سلسلے میں بنگلہ دیش اور مالدیپ ک جیسے ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ کم ازکم تمام حکومتی اداروں (سکول، ہسپتال۔ دفاتر) کی عمارتیں تو ضرور اس ڈیزائن پر بنائی جائیں جن میں سیلاب کے دوران ایمرجنسی طور پر پناہ لی جا سکے۔ ان عمارتوں کو چھتیں پیدل چلنے والوں کے لئے پل بنا کر آپس میں جوڑ دی جائیں۔

۸۔ ریسکیو کاموں میں جدت اور مقامیت

اس سال سیلاب کے گندے پانی کو پینے کے قابل بنانے والے بہت سے مقامی فلٹر پلانٹ سامنے آئے ہیں جنہیں بھر پور سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔خشک خوراک اور ادویات کے واٹر پروف پیکٹ اور تین چار کلومیٹر رینج میں ڈرون سے اون سپاٹ ڈیلیوری بھی کی جا سکتی ہے۔ آفت کی صورت میں پانی، خوراک اور آمدورفت کو رواں رکھنے کے مستقل راستوں کی باقاعدہ نشاندہی ہو۔

۹۔ تربیتی پروگرام

این ڈی ایم اے , ریسکیو 1122 اور اس جیسے دوسرے اداروں کے ذریعے مقامی لوگوں کو ایمرجنسی طور پر تیراکی، کشتی بنانے اور ڈوبتے کو ریسکیو کرنے کی تربیت دینی چاہئے۔ ان علاقوں کے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبا پر ان مہارتوں کو سیکھنا لازمی ہواور این سی سی کی طرح اس کے نمبر ان کے ایف ایس سی کے رزلٹ یا یونیورسٹی کے داخلے میں شامل ہوں۔

۱۰۔ مستقبل کی عارضی پناہ گاہیں

قدرتی آفات کی روک تھام کے ادارے این ڈی ایم اے کو ملک کے سیلاب زدہ علاقوں میں اونچی اور محفوظ جگہوں پر قائم خیمہ بستیوں کی جگہوں کو باقاعدہ طور پر مون سون سیزن کے لئے محفوظ عارضی پناہ گاہیں بنا دینی چاہئیں۔ حج کے دوران منی میں قائم عارضی خیمہ بستی شہر کا ماڈل اس کام کے لئے سامنے رکھا جا سکتا ہے جہاں ہر سال بیس سے پچیس لاکھ لوگوں کے پانچ روزہ قیام کے لئے زبردست بندوبست ہوتا ہے۔

۱۱۔ موبائل ہسپتال اور موبائل صاف پانی

سیلابی پانیوں میں گھرے لوگوں تک صحت اور خوراک پہنچانا سب سے مشکل مگر اہم کام ہے اور موبائل ہسپتال اور صاف پانی کے یونٹ سب سے موثر اور وسیع الاثر ثابت ہوتے ہیں۔لیڈی ہیلتھ ورکرز کی طرز پر موٹر سائیکل بردار پیرا میڈیکل سٹاف اس معاملے میں سب سے اہم ہیں۔ اس معاملے میں الخدمت اس سال بھی کام کر رہی ہے لیکن اسے حکومتی سطح پر پھیلانا ہوگا اور بلوچستان ، چولستان اور سندھ کے دور دراز علاقوں کے لئے تو یہ نظام سارے سال کی بنیاد پر استوار کر دینا چاہئے۔

موسمیاتی تبدیلی کا حل اس آفت کو قابو کرنے کی بجائے اسے گلے لگانے اوراپنے آپ کو آفت کا عادی بنانے میں ہے۔اس ساری صورت کا مثبت پہلو درد دل رکھنے والے وہ افراد یا سماجی بھلائی کی تنظیمیں ہیں جو آفت کے آتے ہی اپنے آپ متحرک ہوئیں اور ریسکیو، ریلیف دیا اور اب بحالی کے کانوں میں مصروف ہیں۔ تاہم اگلے سیلاب سے نپٹنے کی تیاری کون کر رہا ہے؟؟ آؤ کچھ نیا کر جائیں۔

Leave a reply