ذخیرہ اندوزی اور آٹے کا بحران!!!! تحریر: غنی محمود قصوری

0
25

اللہ تعالی نے انسان کے کھانے پینے کیلئے بے شمار چیزیں پیدا کی ہیں ہر ملک و علاقے کا کھانے پینے کا طریقہ کار دوسرے سے کچھ مختلف ہے دنیا میں اس وقت انسانوں کی خوراک سب سے زیادہ گندم سے حاصل کی جاتی ہے دنیا میں چاول و مکئی کے بعد سب سے زیادہ گندم کاشت کی جاتی ہے اس لحاظ سے گندم دنیا میں سب سے زیادہ کاشت ہونے والی فصلوں میں تیسرے نمبر پر ہے
پاکستان کی کل آبادی میں سے 7 کروڑ 70 لاکھ لوگ شہروں جبکہ 13 کروڑ 22 لاکھ دیہات میں رہتے ہیں
پاکستان کے دیہی علاقوں میں گندم بہت زیادہ کاشت کی جاتی ہے اور خاص طور پر پنجاب میں گندم وافر مقدار میں کاشت کی جاتی ہے دیہات کے زمیندار و مزدور لوگ اپنی ضرورت کے مطابق گندم اپنے گھروں میں ذخیرہ کر لیتے ہیں جسے وہ سارا سال لوکل سطح پر لگی آٹا چکیوں سے پسوا کر استعمال کرتے ہیں کم آمدن اور وسائل کے باعث یہ لوگ اپنی ضرورت یا اس سے کم ہی گندم ذخیرہ جمع کر پاتے ہیں مگر چند بے ضمیر و بااثر لوگ اس نیت سے گندم ذخیرہ کر لیتے ہیں کہ جب مارکیٹ میں گندم کی کمی واقع ہو تو ذخیرہ کی گئی گندم کو مہنگے داموں فروخت کیا جا سکے جیسا کہ 2019 میں گندم کی فی من قیمت 1230 اور حکومت کی طرف سے 1300 روپیہ فی من مقرر تھی اس وقت ضرورت مند چھوٹے کاشتکاروں نے انہی نرخوں پر فروخت کی اور اپنی ضروریات پوری کیں کیونکہ اگر وہ گندم بیچ کر پیسہ نا حاصل کرتے تو دیگر ضروریات زندگی پوری کرنے سے قاصر رہتے جبکہ مالی طور پر مستحکم اور بااثر کسانوں و بیوپاریوں نے اس گندم کو ذخیرہ کیا اور اب وہی ذخیرہ شدہ گندم 1900 سے 2100 روپیہ فی من تک فروخت کر رہے ہیں
مارچ سے اگست تک گندم وافر ہوتی ہے جسے بیوپاری حضرات تھوڑی سے زائد قیمت دے کر لوگوں سے خرید کر جمع کر لیتے ہیں اور پھر دسمبر کے بعد زیادہ تر لوگوں کی ذخیرہ شدہ گندم استعمال ہو چکی ہوتی ہے جس کے لئے یہ افراد آٹا چکیوں کے علاوہ فلور ملوں سے آٹا لے کر استعمال کرتے ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بااثر اور امیر لوگ مصنوعی بحران رچاتے ہیں جس پر غریب اور مزدور طبقہ ان سے مہنگے داموں آٹا خریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے
مالی طور پر مستحکم لوگوں نے اپنی ضرورت سے بڑھ کر گندم جمع کی ہوتی ہے لہذہ سارا بوجھ غریب اور مزدور طبقہ پر ہی پڑتا ہے
آٹے کا بحران ہر سال ہی ہوتا ہے مگر اس سال کچھ زیادہ ہی ہو گیا جس کا سبب ذخیرہ اندوزی بنا ہے اس وقت گاؤں دیہات کے بااثر کسانوں و بیوپاریوں کے پاس وافر مقدار میں گندم موجود ہے مگر وہ آہستہ آہستہ سے گندم اس لئے فروخت کر رہے ہیں کہ مجبور لوگوں اور حکومت سے دام زیادہ وصول کئے جائیں اگر گورنمنٹ ذخیرہ اندوزی کو روکنے میں سنجیدہ ہے تو اسے چائیے کہ ان لوگوں سے گندم قطعا نا خریدے بلکہ گندم بیرون ممالک سے خرید کر لوگوں کی ضرورت پوری کی جائے تاکہ ان بے ضمیر لوگوں کی ذخیرہ شدہ گندم ان کے گوداموں میں پڑی رہے اور مارچ سے اپریل تک نئی فصل آنے پر یہ لوگ بھی اپنی گندم انہی مقرر کردہ داموں پر فروخت کرکے عبرت حاصل کریں ذخیرہ اندوزی ایک لعنت ہے جس کے بارے میرے نبی کریم کی حدیث ہے
حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شحض غلہ روک کر گراں نرخ پر مسلمانوں کے ہاتھوں فروخت کرتا ہے اللہ تعالی ایسے لوگوں کو اجذام و افلاس میں مبتلا کر دیتا ہے
مسکوت ،باب ذخیرہ اندوزی کا بیان حدیث 121
ذخیرہ اندوز معاشرے کا ناسئور ہیں ان کی بیخ کنی کیلئے گورنمنٹ کو سخت سے سخت قانون بنانا ہو گا تاکہ یہ ہوس کے پجاری چند روپوں کی خاطر اس ارض پاک کے باسیوں کو بھوکا نا رک سکیں

Leave a reply