اچھے دن کیسے آئیں گے تحریر : علی حیدر

0
42

9مشہور مقولہ ہے کہ اچھے دنوں کے لئیے برے دنوں سے لڑنا پڑتا ہے۔ معاشرے کے قسمت , تقدیر , اور نصیب کے راگ الاپنے والے کاہل اور نکمے لوگوں کو ہمیشہ ناکام ہی دیکھا گیا ہے۔ اپنی ناکامی و نامرادی کے لئیے خود کو خطاوار ٹھہرانے اور بجائے ندامت محسوس کرنے کے یہ لوگ قسمت اور تقدیر کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے نظر آتے ہیں۔
اپنے برے دور سے گزرتا ہوا ایک انسان اگر اپنی تقدیر کو بدلنے اور نئے سرے سے اسے مرتب کرنے کی ٹھان لے تو قلیل عرصے میں وہ اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے پر حالات کا دھارا بدل سکتا ہے۔
معاشرے کے امراء افراد قابل داد و تحسین نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنی آمد سے ہی سونے کا چمچہ منہ میں لے کر آئے بلکہ باعث فخر اور قابل تقلید معاشرے کے وہ افراد ہیں جنہوں نے غربت کی چکی میں ذندگی کے ابتدائی ایام کو جھیلا لیکن اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنی تقدیر بدل ڈالی۔
یہ افراد دراصل معاشرے کے وہ گوہر ہیں جو اپنے جیسے ہزاروں دیگر انسانوں کے لئیے حوصلہ افزائی اور ہمت بندھائی کا باعث ہیں ۔ انہی کے نقش قدم پہ انہوں نے چلنا ہوتا ہے جنہوں نے دنیا کے نظام کو بدل کر نئے دور کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔
برے دنوں کو اچھے دنوں میں بدلنے کی جدوجہد بہت محنت طلب اور پر مشقت تو ضرور ہوتی ہے لیکن جب کامیابی و کامرانی کی صورت میں اپنا رنگ دکھاتی ہے تو سالوں کی تھکان چند لمحوں میں اتر جاتی ہے۔

اپنی ناکامیوں پر تقدیر کی ستم ظریفی اور بدقسمتی کو کوسنے والوں کے خون میں حرارت میں نہیں ہوتی جو ان کو منزلوں کی طرف رہنمائی کرے بلکہ یہ افراد ستاروں کی چال اور طوطے کی فال کے دلدادہ ہوتے ہیں۔
حالات کی سنگینی اور وقت کی ضرورت کو بھانپ کر اور اپنی راستے میں آنے والی رکاوٹوں کا جائزہ لے کر صحیح فیصلہ لینا اور منزل مقصود طے کرنا اچھے دنوں کی طرف بڑھتا ہوا پہلا قدم ہوتا ہے۔
ہر دن خود احتسابی اور اپنی خطاؤں پر ندامت محسوس کر کے اگلے دن نئے جوش اور ولولے کے ساتھ اپنی منزل کو پانے کے لئیے جدوجہد کرنا ہی منزل پر پہنچا سکتا ہے۔
جب یہ عزم کر لیا جائے کے برے دنوں کو اچھے دنوں سے بدلنا ہے تو رات کو سونے سے پہلے خود احتسابی یعنی اپنے ضمیر سے اس چیز کا سوال کرنا کہ اپنے مقصد کے حصول کے لئیے آج میں نے کیا کیا ؟ اس طرح سونے سے پہلے اگلے دن کے لئیے لائحہ عمل طے کر کے نئے حوصلے کے ساتھ محنت اور لگن سے جدودجہد کرنا حصول مقصد میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
اپنے اردگرد موجود تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اور اپنی تمام تر ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو شامل حال کر کے دلجمی سے کام لینا چاہئیے۔
نیلسن منڈیلا کی ستائیس سالہ جدوجہد ہو یا قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک جدو جہد کی داستان ہو وہ انہی اصولوں پہ استوار ہے۔
حصول منزل کے لئیے خلوص دل سے کی گئی کوششیں کبھی رائیگاں نہیں گئیں۔ بلکہ جب یہ کوششیں اپنے ثمرات دکھاتی ہیں تو چہرے خوشی سے کھل اٹھتے ہیں۔
ایسے انسانوں کی لازوال جدوجہد قوموں کے وقار اور سر بلندی کا باعث بنتی ہیں اور ان کا نام تاریخ کے صفحات پر سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے۔
بجائے اپنی قسمت کو کوسنے اور حالات کو ناکامی کا ذمہ داری ٹھہرانے کے کوشش اور محنت کرنی چاہئیے ۔ یہ کوششیں ایک دن ضرور کامیابی سے ہمکنار کرتی ہیں لیکن اگر حالات نہ بھی بدلے , کوششیں رائیگاں بھی گئیں تو پھر بھی ضمیر پہ بوجھ نہیں ہو گا کہ حالات کو بدلنے کی سعی نہیں کی گئی۔

آرام طلبی کی عادت نے ہمارے معاشرے کو ناکامی کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے ۔ اگر ایک پورا خاندان سالہا سال سے غربت کے تھپیڑے سہہ رہا ہے تو خاندان کے صرف ایک فرد کی مسلسل جد و جہد پورے خاندان کی قسمت پلٹ سکتی ہے اور حتی کہ آنے والے تمام نسلوں کو برے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ایک خاندان کی آرام طلبی , کاہلی اور تغافل کا خمیازہ آنے والی تمام نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس لئیے انفرادی طور پہ معاشرے کے ہر فرد پہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کمر کس کر اپنے دائرے میں برے حالات سے لڑے تاکہ معاشرے میں اجتماعی کامیابی کا حصول ممکن ہو اور برے دنوں کو اچھوں دنوں میں بدلا جا سکے ۔ ورنہ معاشرے میں پیدا ہونے والے تمام افراد اور آنے والی تمام نسلیں ہماری طرح ہمارے جیسے حالات کا سامنا کرتی رہیں گی اور یہ کاہلی اور سستی جب سرطان کی طرح ہمارے معاشرے میں سرایت کر جائے گی تو کوئی بھی فرد اپنے اندر اتنی ہمت پیدا نہیں کر سکے گا کہ وہ برے حالات کا استقامت و استقلال سے مقابلہ کر سکے کیونکہ جتنی دیر ہوتی جائے گی حالات کو بدلنے کے لئیے اس قدر محنت اور مشقت درکار ہو گی۔
اس طرح نہ صرف معاشرہ معاشی تندگستیوں کا شکار ہو گا بلکہ اخلاقی ذبوں حالی کا شکار ہو کر عالمی وقار بھی کھو بیٹھے گا اور ہم عالمی صف میں ایک باعزت اور پروقار قوم کے طور پہ کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔

‎@alihaiderrr5

Leave a reply