ادب ایک لطیف اور روحانی فن ہے جو دلوں پر اثر کرتا ہے، احساسات کو جگاتا ہے اور انسانی ضمیر کو بیدار کرتا ہے۔ ایک ادیب کا تعلق صرف کاغذ اور قلم سے نہیں بلکہ وہ معاشرے کے ضمیر کی آواز ہوتا ہے۔ ادیب اپنے مشاہدات، تجربات، درد، خوشی اور سچائی کو لفظوں کی صورت میں پیش کرتا ہے تاکہ سماج کو ایک بہتر سمت دی جا سکے۔مگر آج کل ایک افسوسناک رجحان سامنے آ رہا ہے کہ ادب کے نام پر تقاریب منعقد کر کے ادیبوں کو سیاسی جماعتوں کے پروگرامز میں بلایا جاتا ہے۔ ان تقریبات کا عنوان تو "ادبی ایوارڈز "کے نام پر رکھا جاتا ہے، مگر اصل مقصد سیاسی تشہیر، سیاسی شخصیات کی مدح سرائی یا مخصوص نظریات کی ترویج ہوتا ہے۔ ایسی محفلیں ادیبوں کے لیے باعث اذیت بن جاتی ہیں کیونکہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سیاسی رنگ میں رنگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں

ادیب کا سب سے بڑا وصف اُس کی غیر جانبداری، غیر وابستگی اور فکری آزادی ہے۔ وہ کسی جماعت، مسلک یا مفاد سے بالا ہو کر انسانی اقدار اور سچائی کی بات کرتا ہے۔ وہ نہ کسی لیڈر کی خوشامد کرتا ہے اور نہ کسی سیاسی نعرے کی گونج میں اپنی آواز کھوتا ہے۔ ادیب کا ضمیر اُسے اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے قلم کو کرائے پر دے یا سچائی کو مصلحت کی نظر کرے۔جب ایسے ادیبوں کو زبردستی سیاسی پلیٹ فارم پر لا کر ادب کا نام استعمال کیا جاتا ہے تو یہ اُن کی شخصیت، وقار اور مقصدِ ادب کی توہین ہوتی ہے۔سیاست، اقتدار کی جنگ ہے۔ اس کا مقصد ہوتا ہے اقتدار کا حصول، اپنی جماعت یا لیڈر کی پروموشن، اور اکثر اوقات اس میں مصلحت، منافقت اور مفاد پرستی شامل ہو جاتی ہے۔ جب کہ ادب کا اصل مقصد شعور بیدار کرنا، فکر پیدا کرنا اور سچائی کو بے باکی سے بیان کرنا ہے۔ادب سیاست کا تابع نہیں ہو سکتا، کیونکہ جب ادب کو سیاست کے تابع کیا جائے تو وہ اپنے اصل مقصد سے ہٹ جاتا ہے اور ایک پروپیگنڈہ کا آلہ بن کر رہ جاتا ہے۔

سیاستدان وقت کے ساتھ بدلتا ہے، اُس کے بیانیے، وفاداریاں اور نظریات بھی حالات کے مطابق تبدیل ہوتے ہیں۔ مگر ایک سچا ادیب اپنی فکر پر قائم رہتا ہے۔ اس کا قلم وقت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر سچ لکھتا ہے۔ اُسے کسی وزارت، اعزاز یا شہرت کی تمنا نہیں ہوتی، بلکہ وہ ضمیر کا قیدی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ نے کئی سیاستدانوں کو بھلا دیا، مگر ادیبوں کے الفاظ آج بھی زندہ ہیں۔اگر کسی سیاسی جماعت کو واقعی ادب سے محبت ہے تو وہ ادب کو اس کے اصل مقام پر رہنے دے۔ ادبی شخصیات کو اس لیے مدعو نہ کیا جائے کہ وہ اسٹیج پر بیٹھ کر لیڈروں کی تعریف کریں، انکے حق میں تحریریں لکھیں ،سوشل میڈیا پر انکے لئے بیانیہ بنائیں بلکہ اُنہیں مکمل آزادی دی جائے کہ وہ سماج، سیاست اور اقتدار کے بارے میں جو چاہیں کہیں۔ادیبوں کو محض اس لیے بلا لینا کہ اُن کے نام سے تقریب کو معتبر بنایا جا سکے، یا اُن کی موجودگی سے سیاسی رنگ کو “ادبی” بنایا جا سکے، نہایت افسوسناک رویہ ہے۔

ادب کو سیاست سے جدا رکھیے۔ اگر سیاستدانوں کو ادب سے سچی محبت ہے تو وہ ادیبوں کی فکر کو سنیں، اُن کی تنقید کو برداشت کریں اور اُن کے قلم کو آزاد رہنے دیں۔ ورنہ ادب کے نام پر ہونے والی سیاسی محفلیں نہ صرف ادیبوں کے لیے توہین آمیز ہیں بلکہ ادب کی روح کے بھی منافی ہیں،ادیب وہ نہیں جو سیاسی بینر تلے بیٹھ کر تقریریں کرے، ادیب وہ ہے جو بے خوف ہو کر سچ کہے ،چاہے وہ سچ اقتدار کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

Shares: