کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے ایسی خوبیوں سے نوازا ہوتا ہے جو ہر کسی میں نہیں ہوتیں ، اور یہی خوبی انہیں باقی تمام انسانوں سے ممتاز کرتی ہیں ۔ ایک ایسی ہی شخصیت سعید خان المعروف اداکار رنگیلا کی بھی تھی جو اپنی لازوال اداکاری کے فن سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے اور آج رنگیلے کو ہم سے جدا ہوئے بیس سال گزر گئے لیکن وہ اپنی خودساختہ اداکادی کی وجہ سے رہتی دنیا تک ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔
سعید خان المعروف اداکار رنگیلا دنیائے شوبز کا وہ نام ہے جس کا نام لیتے ہی ہمارے چہروں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے ، جنہوں نے اپنے منفرد انداز سے انڈسٹری کو ایک نئی جہت اور ایک نئی پہچان دی ۔

24 مئی 2025 ء کو رنگیلے کو دنیا سے رخصت ہوئے بیس سال مکمل ہو جائیں گے ، لیکن ہم چاہ کر بھی رنگیلے کی پاکستانی فلم انڈسٹری کے لئے خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے ، کیونکہ ان لوگوں نے اپنے آپ سے بے نیاز ہو کر نہ صرف پاکستان فلم انڈسٹری کا نام روشن کیا بلکہ انڈسٹری پر اپنے عہد کی ایک گہری چھاپ چھوڑی ۔ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فلمی تاریخ ہمیشہ ادھوری رہے گی ۔ انہوں نے چالیس سال تک پاکستانی فلم انڈسٹری پر راج کیا اور اپنی منفرد مزاحیہ اداکاری سے شائقین فلم کو محظوظ کیا ۔

اداکار رنگیلا یکم جنوری 1937 ء کو ضلع ننگرہار ، افغانستان میں پیدا ہوئے ۔ ان کا اصل نام محمد سعید خان تھا ، جبکہ انڈسٹری میں شہرت انہوں نے اپنے مزاحیہ نام رنگیلا سے حاصل کی ۔ذریعہ معاش کے سلسلے میں انہوں نے افغانستان سے ہجرت کرکے پشاور اور بعد میں لاہور کا رخ کیا ، جہاں شروع میں انہیں فلمی سائن بورڈ پینٹ کرنے پڑے ، لیکن بعد میں باضابطہ فلمی کیریئر کا آغاز 1958 ء میں فلم "جٹی” سے کیا ۔ اس فلم میں رنگیلا مزاحیہ اداکار کے طور پر سامنے آئے ۔ اس فلم کے ڈائریکٹر ایم جے رانا تھے اور جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو باکس آفس پر ہٹ ہو گئی ۔ اس فلم میں لوگوں نے رنگیلے کے کردار کو بہت پسند کیا ۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد اس نے فلموں میں بطور اداکار کام کرنے کی ٹھان لی ، یہی کامیابی بعد میں جنون کی کیفیت اختیار کر گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے رنگیلے نے اپنے آپ کو فلم انڈسٹری میں بطور فلم ساز ، ہدایت کار ، نغمہ نگار ، کہانی نویس اور موسیقار کی حیثیت سے متعارف کروایا ۔

1969 ء میں رنگیلا نے اپنی پروڈکشن میں پہلی فلم ” دیا اور طوفان ” بنائی جس میں انہوں نے بحیثیت فلم ساز ، ہدایت کار ، نغمہ نگار اور مصنف کام کیا ۔ جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو اس نے رنگیلے کی شہرت و مقبولیت کو چار چاند لگا دئیے ۔ اس فلم میں رنگیلے نے اپنا لکھا ہوا گانا ” گا میرے منوا گاتا جا رے ، جانا ہے ہم کا دور ” بہت دردناک آواز میں گایا ۔ یہ گانا اسی فلم کے ہیرو اداکار اعجاز پر فلمایا گیا ۔اس کے بعد ” رنگیلا پروڈکشن "کے بینر تلے ایک سے بڑھ کر ایک فلمیں پروڈیوس کی گئیں جن میں ایک فلم "رنگیلا ” 11 ستمبر 1970 ء کو پاکستانی سینما کی زینت بنی جس میں رنگیلے نے ٹائٹل رول ادا کیا ، اس فلم کے نغمات اسٹریٹ ہٹ ثابت ہوئے ، اس فلم میں رنگیلے کے گائے ہوئے دو نغمے بھی شامل کئے گئے جو بہت مشہور ہوئے ، جن میں ایک نغمہ ” ہم نے جو دیکھے خواب سہانے ، آج ان کی تعبیر ملی ۔ ” اور دوسرا ” منور ظریف کے ساتھ ” چھیڑ کوئی سرگم ” یہ دونوں نغمے موسیقار کمال احمد نے لکھے ، اور اس فلم کی موسیقی بھی خود کمال احمد نے ترتیب دی ، اسی فلم کا ایک گانا تصور خانم کی آواز میں اداکارہ نشو بیگم پر پکچرائز کیا گیا ، ” وے سب توں سوہنیاں” نے اس فلم کو شہرت کی بلندیوں پہ پہنچا دیا ۔ الغرض یہ فلم منفرد انداز میں گولڈن جوبلی سے ہم کنار ہوئی ۔

یکم اکتوبر 1971 ء میں ان کی ایک اور ہیٹ ٹرک فلم ” دل اور دنیا منظر عام پر آئی ۔ اس فلم نے بھی کراچی سرکٹ میں شاندار پلاٹینم جوبلی منائی ۔ اس کے علاوہ ان کی سپر ہٹ فلم ” انسان اور گدھا ” جس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کی دیگر فلموں میں میری زندگی ہے نغمہ ، نوکر مالک ، سونا چاندی ، مس کولمبو ، باغی قیدی ، تین یکے تین چھکے ، آنسو بن گئے موتی ، جیسے جانتے نہیں ، امانت ، دو رنگیلے ، کبڑا عاشق ، عشق نچاوے گلی گلی ، ہمراز ، ہیرو ، انٹرنیشنل گوریلا ، عورت راج ، دو تصویریں ، دوستی ، گہرا داغ ، بازار حسن ، میڈم باوری ، رنگیلے جاسوس اور عبداللہ دی گریٹ ، میری محبت تیرے حوالے ، صبح کا تارا ، گنوار ، جہیز ، نمک حلال ، دو رنگیلے ، ایمان دار ، بے ایمان ، کاکا جی ، راجا رانی ، امراؤ جان ادا ، پردہ نہ اٹھاؤ ، صاحب بہادر اور فلم قلی شامل ہیں ۔ رنگیلے کو بہترین سکرین پلے رائٹر ، کامیڈین ، مصنف اور بہترین ڈائریکٹر کی حیثیت سے نو مرتبہ نگار ایوارڈ سے نوازا گیا ۔

رنگیلا پروڈکشن کے بینر تلے جتنی فلمیں بھی تخلیق کی گئیں وہ سب کی سب ہی لازوال اور اپنے عہد کی شاہکار فلمیں ثابت ہوئیں ۔ پردہ سکرین پر رنگیلے کی آمد فلم بینوں میں ارتعاش پیدا کر دیتی تھی ۔ رنگیلے نے فلموں میں کامیڈین سے لے کر ہیرو تک کا سفر انتھک محنت اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر طے کیا ، یہاں تک کہ رنگیلے کو پاکستانی فلم انڈسٹری کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا ۔ رنگیلے کے پاس ہر ڈائریکٹر ، پروڈیوسر کی لائن لگی ہوتی کہ وہ ہماری فلم میں کام کرے ۔ رنگیلے نے اپنی محنت اور ذہانت سے فلم انڈسٹری میں اپنا الگ مقام بنایا ۔ انہوں نے اپنے عہد کی تقریباً تمام ہیروئن کے ساتھ کام کیا ۔

اداکار رنگیلے کی آواز بھارتی گلوکار مکیش سے ملتی تھی ۔ جب مکیش کا انتقال ہوا تو بھارت نے رنگیلے کو بطور گلوکار کام کرنے کی پیشکش کی ، لیکن مصروفیت کے باعث اس نے بھارت میں کام کرنے سے انکار کردیا ۔
رنگیلے نے تین شادیاں کیں ۔ چالیس سال تک پاکستانی فلم انڈسٹری پر راج کرنے والے اس عظیم اداکار کو زندگی کے آخری ایام میں گردوں ، جگر اور پھیپھڑوں کے مسائل نے آ گھیرا ، جس کے علاج کے لئے اسے کئی کئی مہینے ہسپتال میں گزارنے پڑے ۔ حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں امداد کی پیشکش ہوئی تو اس نے اسے ٹھکرا دیا ۔ وفات سے پہلے اداکارہ نشو بیگم نے اپنے اور رنگیلے پر فلمایا گیا گانا ” وے سب توں سوہنیاں ” رنگیلے کے پاس بیٹھ کر اتنی دردناک آواز میں گایا کہ پاس بیٹھے سب لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے ۔ سب لوگ رنگیلے کی زندگی اور صحت کے لئے دعائیں مانگنے لگے لیکن افق کی بلندیوں پر چمکنے والا یہ ستارہ ان موذی امراض کا مقابلہ کرتے کرتے بالآخر 24 مئی 2005 ء کو لاہور میں 68 سال کی عمر میں اس ابدی سفر پر روانہ ہو گیا جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا ۔ ان للہ وان الیہ راجعون ۔۔۔ اللّٰہ تعالیٰ مرحوم اداکار رنگیلا کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ۔

Shares: