عدل اور سیاست، تحریر:سیدہ زکیہ بتول

0
27
زیادتی کے نتیجے میں ہونیوالے حمل کو عدالت نے ضائع کرنے سے روک دیا

مملکت پاکستان میں سیاسی اتار چڑھاؤ اب معمول کی بات ہے الزام تراشیوں کے سلسلے بھی اب نئے نہیں اور تو اور اب مقدس اداروں کے نظام پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔۔۔ایسا ہی ایک ادارہ عدلیہ ہے ایسا نظام جس سے ایک ریڑھی والے سے لیکر اسمبلی میں بیٹھے حکمران تک کی امید بندھی ہیں ریاستی نظام میں یہ واحد ستون ہے جس پر پور ی ریاست چل کر خوشحالی کا جانب گامزن ہوتی ہے مگر جہاں عدالتیں عام شہری کو انصاف کی فراہمی میں ناکام ہوچکی ہوں وہاں نہ صرف ریاستی نظام بلکہ اس سے جڑے تمام تر امور ناکام تصور کیے جاتے ہیں۔۔۔جبکہ آج کل تو عدالتوں اور انکے ججز سے جڑے سیاسی سے قصے زبان زد عام ہیں۔۔سیاسی جماعتوں کی الزام تراشیوں کا سلسلہ چلتے چلتے معزز عدالتوں میں بیٹھے جج صاحبان تک جا پہنچا ہے۔۔۔

معاملہ کچھ یوں ہے کہ ایک جج صاحب نے دوسرے معزز جج پہ مبینہ الزام لگایا کہ انہوں نے نواز شریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز کو سزا دلوانے میں اہم کردار نبھایا اور پھر اسکے بعد سوشل میڈیا ہو یا ٹی وی کے ٹاک شوز حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ چھڑتی دکھائی دے رہی ہے ایک جماعت ایک جج کے ساتھ دوسری مخالف کے ساتھ اور عوام کیا سوچ رہی اسکی نہ نظام عدل کو پروا نہ ہی انتظامیہ کو لینا دینا۔۔۔تو بھئی بات یہ ہے کہ معاملات جو بھی تھے اس سے ایک عام آدمی صرف اور صرف اتنا سوچنے پر مجبور ہے کہ جن عدالتوں پر آنکھیں بند کر کے وہ یقین رکھتا تھا کہ وہاں حلفاً فیصلے انصاف پر ہوتے ہیں تو کیا وہ محض اسکی خوش خیالی تھی یا چلیں مان لیتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کوئی لین دین ہوئی بھی ہے یا سیاسی رشتہ داریاں نبھائیں گئی ہیں تو کیا جج صاحبان کو کھلے عام بیانات دے کر عدالتوں پر سے اعتبار اٹھوانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا؟۔۔سیاسی رسہ کشی میں ہم اپنے اداروں کی بے توقیری میں ملوث ہورہے ہیں اس بات کا احساس تک نہیں کیا بیان دینے والوں نے ۔۔ ایک انصاف دینے والا دوسرے انصاف دینے والے کے کردار کو پوری قوم کی نظر میں مشکوک بنا رہا ہے تو پھر خود بتائیے کیا عدالت وہ جگہ رہ جائے گی جہاں انصاف کی دہائی کے لیے لپکا جائے؟

آپ کبھی کچہری میں ہزاروں لوگوں کو دھکے کھاتے دیکھیے جو اپنے کیس جوانی میں دائر کرتے اور بڑھاپے تک فیصلے مؤخر رہتے یا پھر کیس کی سنوائی ہی نہیں ہو پاتی۔۔کرمنل کورٹس میں کئی بے گناہ منتظر ہیں سول کورٹس میں ڈھیروں فائلیں کسی خاک سی امید تلے دب چکی ہیں کئی خواتین سے متعلق کیسز ہیں جو ڈرتے مرتے تشدد کے خلاف آواز اٹھا بیٹھیں مگر کوئی سننے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے والا نہیں۔۔۔ بد قسمتی سے انصاف کا دوہرا معیار بھی اس نظام کی ناکامی کی وجہ بنتا جارہا ہے غریب جسکے پاس پیسہ نہیں وہ روز عدالتوں کی خاک چھانتا ہے اسکو سننے والا کوئی نہیں ہوتا جبکہ روپے پیسے والا ایک دن میں اپنا کیس عدالت سے نمٹا لیتا ہے۔۔۔بڑے بڑے مجرم عدالتوں سے پلک جھپکتے بری ہوتے دیکھے کئی نامی گرامیوں کو قانون کی آنکھوں میں خاک جھونکتے بھی دیکھا انہی عدالتوں نے مجرموں کے کمروں سے برآمد شدہ شراب کی بوتلوں کو شیمپو کی بوتلیں بھی کہا سیاسی مجرموں کو محفوظ راستے بھی فراہم کیے سیاستدانوں کو سیاسی انتقام میں بھی جھونکا کئی سیاسی بدمعاش تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی جماعتوں کے زیر سایہ کئے گئے سنگین جرائم کا اعتراف تک کیا مگر با عزت بری ہوئے۔۔ غریب بھوک کے ماے ایک روٹی بھی چوری کر ے تو پولیس پکڑ کے لے جائے گی اس بے چارے کو حوالات سے جیل تک پہنچا دیا جائے گا جبکہ دن دیہاڑے ٹریفک وارڈن کو کچلنے والے ایم این اے مجید اچکزئی جیسے لوگ انہی عدالتوں سے رہا ہوجاتے ہیں اور کہا جاتا ہے ثبوت ناکافی ہیں جبکہ قتل کی فوٹیج تک عدالت میں دکھائی جاتی ہے۔ معاشرے کی بقا کے لیے کفر کا نظام تو چل سکتا ہے پر ظلم کا نہیں۔ اسوقت پاکسان کی مختلف عدالتوں میں بائیس لاکھ سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہے عدالتیں خود مختار اور آزاد ہونگی تو انصاف کی فراہمی جلد اور یقینی ہوگی عدالتی نظام میں اصلاحات اکثر سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کا منشور کا حصہ رہیں مگر عملی طور پر کچھ نہ کیا جاسکا مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ ایک دوسرے سے جڑے ستون ہیں ایک میں بھی سقم ساری ریاست کی بنیادیں ہلا سکتا ہے۔۔ انصاف پر مبنی نظام عدالتوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے جبکہ حکومت کو بھی عدالتوں میں پڑے تمام زیر التوا مقدمات کے جلد از جلد فیصلوں کے حوالے سے اقدامات اٹھانے چاہئے تا کہ فوری اور بروقت انصاف مہیا ہوسکے۔ اور ایک نظام ترتیب دیا جائے کہ جو جو وکلا یا ججز مقدمات کو التوا میں ڈالنے کا سبب بن رہے ان سے پوچھ گچھ یقینی بنائی جا سکے۔ سیاست دانوں کو سیاست اور ججز کو عدل قائم کرنے ہوگا اگر عدلیہ میں سیاست شامل ہونے لگی تو پھر انصاف کے نظام میں دراڑیں پڑنا شروع ہوجائیں گی جو عدالتی نظام پر سوالیہ نشان بن کر ابھرتی چلی جائیں گی۔

سیدہ زکیہ بتول
@NayyarZakia

Leave a reply