عدم کے مسافر : تحریر ؛ محمد نعیم شہزاد

0
32

عدم کے مسافر

محمد نعیم شہزاد

کائنات اور اس کی ہر شے فانی اور عدیم المدت ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے مگر اس جو اس کائنات میں بعد میں بھیجا گیا اس کا اصل مستقر جنت عدن ہے اور اپنی کوتاہی اور عدو مبین شیطان مردود کے دام میں آ کر یہ اپنے اس گھر کو کھو بیٹھا اور عارضی طور پر اسے دنیا میں بھیج دیا گیا۔ یہاں انسان کو مستقر الی یوم معلوم (متعین کردہ مدت تک قیام) اور متاع الی حین (مقررہ وقت تک نفع و فائدہ) عطا کر دیے گئے۔ انسان کی فطرت میں اصل کی طرف لوٹنے کی جستجو ودیعت کر دی گئی ہےلہذا وہ اس دنیا میں ایسی آسائش پیدا کرنے کی جستجو میں رہتا ہے جیسی اسے جنت میں حاصل تھی۔ آپ غور کریں تو جتنی دور حاضر کی ایجادات ہیں وہ انسان کو راحت و آرام پہنچانے کا سامان کرتی ہیں۔ انسان نے گرمی، سردی سے بچنے کے وسائل ایجاد کر لیے، آٹومیشن اور روبوٹکس کے ذریعے انسان بیٹھے بٹھائے اپنی مرضی کے کام انجام دے سکتا ہے اور خلا کی تسخیر کرتا ہے۔ اس کی ترقی کا یہ حال ہے کہ شاعر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا

عروج آدم خاکی سے انجم سہمے بیٹھے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے

لیکن انسان سے ایک بڑی خطا جو سرزد ہوتی ہے وہ اس بات کو یکسر بھلا دینا ہے کہ اس کا یہ ٹھکانہ عارضی اور وقتی ہے۔ اس کی اس جہان کی آسائشیں اور جملہ سہولیات بھی اس دنیا تک ہی محدود رہنے والی ہیں مگر اس کی حقیقی زندگی تو اس کے بعد شروع ہونے والی ہے۔

عدم کا یہ مسافر اس عدیم الوقت زندگی کو ہی حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے۔ ابن الوقتی دستور حیات اور عبد الدینار و دراہم بننا اس کا طرز زندگی بن کر رہ گیا۔ دنیا کی ظاہری چکا چوند میں کھو کر اپنے مقصد کو بھلا بیٹھا اور اتنا ضعیف الحافظہ واقع ہوا کہ آنکھوں کے سامنے اپنے ہی ہاتھوں سے اعزا و اقارب کو مدفن میں اتارتا ہے اور خود کو امر سمجھتا ہے۔ ان بھول بھلیوں میں ایسا الجھا کہ حقیقت کو سراب اور اس دنیا کے فسوں کو حقیقت سمجھ بیٹھا۔ انسان کی آنکھ اسی وقت کھلتی ہے جب یہ ہمیشہ کے لیے بند ہونے کے قریب ہوتی ہے۔ مگر سکرۃ الموت کے وقت نزع کے عالم میں تو اس کی وصیت کا اعتبار نہیں کیا جاتا تو توبہ کیونکر قبول ہو گی۔

سنبھل جائیے۔ اس دنیا میں اپنے مقام کو پہچانیے۔ یہ جہان فانی ہے اس کے لیے اتنی کوشش کریں جتنا یہاں کا قیام ہے۔ اپنی توانائیاں پورے طور پر اس جہان کے لیے صرف کریں جو بقا کا جہان ہے جہاں کی زندگی ہمیشگی کی ہے اور نعمتوں کو زوال نہیں۔ گزشتہ دنوں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جب رات کے قریب 12 بجے سونے کی تیاری میں تھا فون کی گھنٹی بجی اور بڑی بہن کی وفات کی دلسوز خبر سنائی گئی۔ اللہ کی قضا پر انسان خود کو کس قدر بے بس تصور کرتا ہے۔ کوئی اپنے آپ کو کتنا ہی بااثر نہ سمجھتا ہو اللہ کی قدرت کے آگے بے بس ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے حقیقت میں موت یاد آئی کہ یہ وقت مجھ پر بھی آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کی درخواست کی اور اپنے گریبان میں جھانکا۔ اپنی بداعمالیوں پر ندامت کا اظہار اور نیکی پر مداومت کے ساتھ اک نیا عزم کیا۔ میت کے غسل، تکفین و تدفین کے معاملات میں کئی بار شامل ہوا یہ پہلا موقع تھا جب کسی قبر میں اترا اور محسوس کیا کہ اس میں کیا احساس ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کے ذکر کا مقصد تذکیر بایام اللہ ہے۔ کیونکہ فرمان الہی کے مطابق نصیحت فائدہ دیتی ہے۔ اللہ سے اس دعا کے ساتھ کہ وہ ان نگارشات کو ہمارے لیے مفید بنائے ایک بار پھر گزارش کروں گا کہ اس فانی دنیا میں ہم ہمیشہ کی زندگی کی تیاری کے لیے آئے ہیں ۔ خاتمہ باالایمان ہو جائے تو عدم کے مسافر خلد میں فلاح پا جائیں گے۔
و ما توفیقی الا باللہ

Leave a reply