ادھورے خط تحریر : محمّد اسحاق بیگ

0
35

السلام علیکم!

آج گرمی اپنے شباب پر ہے اپنے تمام تر جاہ و جاللال کے ساتھ ، گرم کر دینے کے عمل سے ، گرمی کی اتنی شدت اور میرا بوائلر  روم سب سے گرم ہے۔ اتنی شدید گرمی میں میرا بوائلر  روم جہنم کا ایک گوشہ معلوم ہوتا ہے ۔اور جب بوائلر  روم کے اندر جانا پڑتا ہے تو گرمی کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔اور پسینہ آنا شروع ہو جاتا ہے۔جسے  پچلھے سال کیمسٹری لیب میں کیمسٹری کے پریکٹیکل کرنے میں آتا تھا ۔

  اتنی گرمی کے باوجود لیب کوٹ پہننا ضروری ہوتا لیب کوٹ جلتی ہوئی گیس جلاتی ہوئی دھوپ اور لیب کی بند کھڑکیاں ،لڑکیوں کے لال ہوتے سرخ سیب کی طرح رخسار ،ماتھوں پر بالوں کا لٹ کی صورت میں ٹھہر  جانا کتنا بھلا لگتا تھا۔

  مجے یہاں کی گرمی دیکھ کر وہ سب یاد أگیا

  کیمسٹری لیب، فزکس لیب ( Y) بس کا سفر،  اور تم  لوگوں کو بہت گرمی محسوس ہوتی تھی اور  مجے مزہ آتا تھا   یہاں بھی لوگوں کو گرمی محسوس ہوتی ہے اور میں لطف اندوز ہوتا ہوں کیونک میری فطرت  میں گرمی سردی ،خزاں، بہار ہر  موسم لطف اندوز ہونے کی عادت ہے۔

  

١٩مَی 1993ء

اوپر کی سطور میں تقریبا” ١٥ دن پہلے لکھ چکا ہوں ۔١٨ مئی کو تمہارا خط مجے ملا حالات سے اگاہی ہوئی میں تم لوگوں کے خطوط کا ہی انتظار کر رہا تھا اسد کا رویہ قابلٔ افسوس تھا کہ اس نے خط تم لوگوں کو تک نہ پہنچاۓ۔

 تمہارا خط مجے مل گیا تھا۔ افسوس ہے کہ تم نے پنسل سے لکھا ہے خط لکھنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ خط لکھنا ایک مہذب  کام ہے تم لوگ کب اپنا آپ مکمل کرو گے توقیر ، تم سب جتنے بھی ہو میرے حلقہ احباب  میں ، کام  میں اپنی زندگی کے  اصل رخ دیکھنا جانتے ہو کیا اسا ممکن نہیں ہے کہ میں اپنے ملنے والوں سے تم دوستوں کی تعریف کرتا ہوں ممکن ہے ان کو لگتا  ہو کہ میرے دوست عام راستوں پر چلنے کے عادی نہیں ہیں۔ اور تم لوگ ہو کہ کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر جاتے ہو  جس سے میری ناک چڑھ کر ماتھے سے جا لگتی ہے۔ بھلا سوچو میری چڑھی ہوئی ناک دیکھ لاہور والے کیا  سوچیں  گے۔ 

 کچھ تو خیال کرو خیر چھوڑو ان باتوں کو کہیں ایسا نہ ہو کہ خط اپنی باتوں کی نذر  ہو جاۓ۔

ہاں میں پنجاب کا رہنے والا پنجاب کا پنجابی ہوں  مجے اکثر جامعہ ملیہ کالج کا  کلاس روم پریکٹیکل  لیب یاد آتا ہے۔خاص طور پر ان گرمیوں  میں جو آج کل لاہور پر مسلط ہے ۔

 پچھلے سال کراچی میں بھی  شدید گرمی تھی۔اندازہ پریکٹیکل کرنے کے دوران یا  Y بس کا سفر کرنے  پر ہوتا تھا۔یا چند  جو ہماری کلاس میں گوری چٹی لڑکیوں کے سرخ ہوتے ہوۓ گالوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا۔

یہ وہ باتیں ہیں جو میں اکثر یہاں اپنے بوائلر  روم میں بیٹھ کر سوچتا ہوں کیونکہ یہاں سوچنے اور لکھنے کے علاوہ کچھ اور کام نہیں ہوتا عجیب نوکری ہے پندرہ دن ہو گئے ہیں ،آتا ہوں ، سوچتا ہوں شام چار بجے گھر کے لئے روانہ ہو جاتا ہوں۔اور  رات گئے تک آوارہ گردی کرتا ہوں اور صبح پھر ڈیوٹی پر آ کر سو جاتا ہوں۔

ویسے مجھے یہ اپنی ڈیوٹی بہت اچھی لگتی ہے۔کیونکہ اس ڈیوٹی کی وجہ سے میں صبح سورج کے ساتھ خواب سے حقیقت کی طرف طلوع ہوتا ہوں۔یعنی صبح ٥ بجے اور مغرب کی طرف جاتی رات دیکھتا ہوں۔اور مشرق سے دبے پاؤں آتی  خوشگوار صبح دیکھتا ہوں۔جب میں پہلی بار اٹھا تو کچھ پہر انکشاب ہوا کہ سورج میرے گھر سے تقریبا ایک میل کے فاصلے پر رہتا ہے۔

رات تمہارا خط ملا اور آج میری ماں نے دو پراٹھے اور آلو ٹماٹر کے ساتھ بھون کر مجھے دیے لے بیٹھ جا۔دوپہر جب بھوک لگے تو باہر سے کھانے کی بجائے یہ کھانا۔میں نے کھایا۔مجھے انڈوں کا صفر یاد آیا۔میں آپ ہی آپ مسکرا پڑا۔پھر تمہیں خط کا جواب دینے بیٹھ گیا۔

پرسوں والے دن مجھے بتانا جب رزلٹ آئے ، اور پرسوں والا  دن ہمارے کالج کی چھت پر رہتا  ہے۔تمہیں اتنا نہیں پتا تمہاری غفلت پر افسوس ہے لیکن نظر بہت کم لوگوں کو آتا ہے۔پرنسپل کو نظر آتا ہے۔یا اسحاق  کو۔ پنسل  سے لکھنے والوں کو تو بالکل نظر نہیں آتا۔اور نہ ہی انگلش ٹیچر کو نظر آتا ہے۔اور کل ٹیکنیکل کالج کی چھت پر رہتا ہے۔ اور سورج میرے گھر سے ایک میل کے فاصلے پر ہے۔

آہ یہ چیزیں تمھیں نظر نہیں آیئں گیں ۔

آ تجھے میں گنگنانا چاہتا ہوں۔

اچھے اور پیارے لڑکے۔

اؤ چند لمحوں ، چند سالوں ، چند صدیوں کے لئے میرے پاس آؤ۔

میرے قریب بیٹھو

میں تمہیں کچھ سمجھاؤں میں تمہں ایک سچی اور کھڑی لیہ پر لگاؤں۔اور تم سمجو گے ان حقیقتوں کو جو بہت  اکلیت میں ہیں۔جن تک ہر دور میں چند انسان پہنچ پاتے ہیں ۔ سب زندہ ہیں ، سب مردے ہیں مرے ہوۓ۔ آؤ پیارے میرے پاس بیٹھو۔تم محسوس کرو گے جو مر چکے ہیں۔وہ موجود ہیں۔اور جو زندہ ہیں۔وہ کہی چلے گئے ہیں جو مر جاتے ہیں وہ اپنے وجود میں آ جاتے ہیں۔اور زندہ غائب ہو جاتے ہیں۔ہا۔ہا۔ہا۔تم نہ سمجھ پاؤ گے۔کیونکہ تم محض ایک سایہ کی طرح زندگی گزار رہے ہو۔جو ہوتا ہے لیکن  کچھ نہیں کرتا۔

تم کیا کرتے ہو؟کیا کیا ہےآج تک؟ جو گزر گۓ وہ کچھ کر گۓ۔ جو کچھ گزار رہے ہیں وہ بھی کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔اور تم_____۔

تم کو اپنی ذات کا نہیں پتہ__ محض ایک ساۓ کی طرح زندگی گزار رہے ہو۔آؤ ۔ گھبراؤ مت۔اٹھ کھڑے ہو۔ابھی سفر بہت لمبا ہے۔اور کھٹن۔اور تم مسافر۔

اب تک ان راستوں پر چلتے آۓ ہو۔جو پامال ہو چکے ہیں۔جن پر کتنے ہی انسان محض کیڑے مکوڑے کی طرح سفر کرتے ہیں۔اور تم بھی ان میں محض ایک کیڑے کی حیثیت رکھتے ہو۔

اب بھی وقت ہے۔چھوڑو ان پامال راستوں کو۔آو۔ ادھر آؤ ۔اس وحشت میں۔پر منظر جنگل میں۔اس وادی میں۔نیلی جھیل کے کنارے۔جہاں کئی  انسان کے قدم اب تک نہیں پہنچ سکے ۔  آؤ سفر اب بھی طویل ہے۔ اور بالکل اجنبی۔نئ راہوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہو۔عام انسانوں کی صف میں سے نکل آؤ ۔پھر دیکھو تم کو یہ انسان محض سایوں کی طرح نظر آئے گے۔اور سائے کی کیا حقیقت ہوتی ہے؟

گرمی نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے لیکن میں ___

سب کنٹین کی طرف جا رہے  ہیں کھانے کے لئے میں بھی جاؤں گا اب کچھ ہی دیر بعد۔شہتوت کی چھاؤں میں شیخ کے ہاتھ کی پکی ہوئی روٹی کھاؤں گا۔شہتوت کی چھاوں بہت سکون بخش ہے۔کھانے کے بعد ٹھنڈا پانی ‏پیؤنگا۔سکون سے آنکھیں بند کروں گا گرمی سے پیاری کوئل کی صدا سنوں  گا۔چڑیوں کی چوں ۔چوں اور کوؤں کی کائیں کائیں۔

 سورج جادوگر ہے پیارے۔

  

 @Ishaqbaig___

 

Leave a reply