افغانستان میں امن تحریر : عفراء مرزا

0
36

افغانستان میں آخرکار طالبان اپنے پاؤں مضبوط کرنے میں کام یاب ہوچکے ہیں ۔ عسکری محاذ پر تو ان کی مہارت سے دنیا واقف ہوچکی تھی اب سفارت کاری و سیاست میں بھی وہ دنیا کو حیرت زدہ کیے ہوے ہیں۔ امریکا کی شکست نے جہاں دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلا کیا ہوا ہے وہی پر آنے والے سالوں تک افغانستان کی فتح پر محقق اپنے اوراق طالبان کی پالیسیوں کے نام کرتے رہے ہیں ۔

جدید ترین ٹیکنالوجی و اسلحہ اور دنیا کے بہ ترین اذہان کو شکست سے دوچار کرنا ظاہر کرتا ہے کہ آج بھی جذبوں اور دعاؤں سے جنگ جیتی جاسکتی ہے ۔ کابل ہوائی اڈے سے آخری امریکی کے انخلا کے بعد جب طالبان نے کنٹرول سنبھالا تھا اور سجدہ شکر ادا کرکے اپنی فتح یابی کو اللہ وحدہ لاشریک کے نام کیا تھا تو کتابوں میں لکھی وہ باتیں سچ ثابت ہوئی تھیں ۔ طالبان کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اسلامی نظام کے صرف حامی نہیں بلکہ اس وقت حتی المقدور کوشش میں ہیں کہ دنیا کے ساتھ تعلقات کو پرامن رکھتے ہوے باہمی اتحاد و اتفاق کی فضا کو قائم رکھا جاے ۔ ماضی میں ہوئی غلطیوں اور سختیوں سے وہ اچھا خاصا محتاط رویہ اختیار کیے ہوے ہیں ۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کا اظہار کرتے ہوے کہا ہے کہ "ہم افغانستان پر مسلط نہیں ہوے بلکہ عوام کے خادم ہیں اور قوم سے وعدہ کرتے ہیں کہ اسلامی روایات ، آزادی و خود مختاری کی حفاظت کریں گے ۔

انھوں نے مزید کہا ہے کہ تمام افغان ملک اور مذہب کے لیے متحد ہو جائیں۔” کابل میں ایک تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوے ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ "امریکا ایشیائی ممالک میں دراندازی کے لیے مضبوط فوجی اڈہ بنانے کے لیے افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا اور اس کا ایک مقصد قدرتی وسائل کو لوٹنا بھی تھا ۔ ہم غیرملکی سرمایہ کاروں کو افغانستان میں لانے کی کوشش کریں گے ۔ ہم دنیا کو یقین دلاتے ہیں کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔”

افغانستان میں طالبان اپنے پاؤں جما چکے ہیں ۔ ایک چھوٹے علاقے کے سوا پورا افغانستان طالبان نے فتح کرلیا ہے اور اب ان کی نظریں تعلقات کو سازگار کرنے اور 20 سال تک قابض رہنے والے امریکا و ناٹو کو بھی امن و خیر سگالی کی دعوت و پیام دے رہے ہیں ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ جہاں طالبان امن کی کوششوں میں مصروف ہیں وہی پر امریکا و ناٹو سمیت دیگر ممالک بھی طالبان کے مستقبل کے طرز عمل کی بنیاد پر ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

موجودہ ساری صورت حال میں پاکستان کا کردار بنیادی نوعیت کا ہے ۔ پاکستانی کردار کو اس بات سے دیکھیے کہ امریکا تک پاکستانی قیادت پر تکیہ کیے ہوے ہے اور اپنے فوجیوں کو نکالنے کے لیے پاکستان کی طرف دیکھا گیا تھا ۔ پاکستان دنیا اور طالبان کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کررہا ہے ۔ جہاں وہ طالبان کو حکومتی طرز عمل کی الف ب سکھا کر پٹری پر چڑھانے کی سعی کررہا ہے وہی پر امریکا و دیگر مقتدر ریاستوں کو بھی سمجھا بجھا کر سیدھا کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ پاکستان کا واحد مقصد اپنے پڑوس کو پرامن دیکھنا ہے تاکہ پاکستان مزید خاک و خون سے بچا رہے اور افغان باشندے اپنے ملک میں سکون کی نیند سے سو سکیں۔ سی پیک ایک طرح سے افغان امن کے ساتھ وابستہ ہے اور اسی لیے چین بھی افغان امن میں دل چسپی لے رہا ہے ۔

بھارتی دل چسپی تو کسی سے چھپی نہیں کہ وہ پاکستان و چین کو سبق دکھانے کے خواب دیکھ کر افغانستان میں لمبی چوڑی سرمایہ کاری کی آڑ میں دہشت گردانہ کارروائیاں کروا رہا تھا ۔ طالبان قیادت بھارت کو متنبہ کرچکے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف افغانی زمین کا خیال دل سے نکال دے ۔ اس وقت اگر کوئی سخت مضطرب ہے تو وہ بھارت ہے کہ وہ توسیع پسندانہ مقاصد کو ناکام ہوتا دیکھ نہیں پارہا ۔ اس لیے اگر کوئی بھارت کو ہلکی سی تھپکی بھی دیتا ہے تو وہ بھارت افغانستان و پاکستان کی امن کی خواہش کو ملیا میٹ کرسکتا ہے ۔ امریکا و ناٹو ممالک کو بھارت جیسے ملک پر گہری نظر رکھنا ہوگی تاکہ افغان امن کا قیام شرمندہ تعبیر ہوسکے ۔

ٹویٹر اکاونٹ : @AframirzaDn

Leave a reply