افغانستان، ہمسایہ ممالک اور گریٹ گیم۔۔تحریر: محمد شعیب

0
43

افغانستان میں اس وقت کیا گریٹ گیم کھیلی جا رہی ہے، وہاں پر عالمی اور علاقائی طاقتیں کیا چاہتی ہیں اور وہاں کون کیا کھیل کھیل رہا ہے۔ یہ طالبان کون ہیں ، افغانستان پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ کیوں ہے۔ اور امریکہ کیا چاہتا ہے۔
کیا آپ کو پتا ہے کہ افغانستان کی اسی فیصد آبادی چالیس سال سے کم عمر ہے اور جب انہوں نے انکھ کھولی تو ان کے ملک میں کبھی خانہ جنگی تو کبھی غیر ملکی فوجوں کا جنگ اور خون کا کھیل جاری تھا۔ تشدد نے اس قوم کی چولیں ہلا دی ہیں اور آدھی سے زائد قوم شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔
اب آپ کے سامنے ایسے ایسے انکشافات سے پردہ اٹھائے گی جس سے آپ کو اس مسئلہ کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
کیا آپ کو پتا ہے کہ امریکہ، پاکستان، ایران، چین اور دیگر ممالک افغانستان میں کن مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ میدان جنگ افغانستان ہے، لڑنے والے افغانی ہیں لیکن پلاننگ، پیسہ اور سوچ کسی اور کی ہے۔
اس وقت افغانستان اور طالبان کے حوالے سے ہر طرف پراپیگنڈا جاری ہے۔ کوئی عورتوں کے حقوق اور ان کی تعلیم پر رو رہا ہے تو کوئی داڑھی رکھنے سے خوفزدہ کر رہا ہے، کوئی کہتا ہے کہ گناہ کرنے پر سنگسار کر دیا جائے گا تو کوئی فلم اور میوزک کے خاتمے کی بات کر رہا ہے۔ اس وقت یہ بات پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ طالبان آنے کے بعد زیادہ سے زیادہ سخت پابندیاں لگا دیں گے اور لوگوں کی آزادی ختم ہو جائے گی۔
یہ طالبان کون ہیں۔؟؟ یہ وہی طالبان ہیں جنہوں نے انیس سو اسی کی دہائی میں پوری قوم کے ساتھ مل کر روس کے خلاف جہاد کیا۔ اور امریکہ اور مغرب نے اپنے مفادات کے لیئے خوب حصہ ڈالا۔جب روس
نوے کی دہائی
میں افغانستان سےنکلنا شروع ہوا تو 1992 میں سول وار شروع ہو گئی اور ملک پر قبضے کے لیئے وار لارڈز نے کھینچا تانی شروع کر دی۔ طالبان نے کابل پر انیس سو بانوے میں قبضہ کر لیا جس کے بارے میں پاکستان پر الزام لگا کہ اس کے حاضر سروس افسران نے بھی طالبان کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیا۔ پاکستان کا اس میں کیوں مفاد ہے کہ طالبان افغانستان پر حکومت کریں ،دراصل یہ معاملہ پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ ہے۔ جسے دنیا کے لیئے سمجھنا ضروری ہے۔
اب بات کرتے ہیں نوے کی دہائی میں ۔۔افغانستان کے دارلحکومت کابل پر جب طالبان کا قبضہ ہو گیا تو کیا ہوا۔؟
طالبان کے افغانستان میں اقتدار کے بعد داڑھی کو کپڑے سے چیک کرنے اور سڑکوں پر سزائیں دینے کے قصے مغرب سے مشرق تک پھیل گئے اور ایسا ظاہر کیا گیا کہ دنیا ہزار سال پیچھے چلی گئی ہے۔اس حوالے سے ایک مشہور کہاوت ہے کہ اگر طالبان کے پاس میڈیا اور سوشل میڈیا ہوتا تو امریکہ طالبان کو کبھی نہ ہرا پاتا۔

طالبان پر نائن الیون کو سپورٹ کرنے اور اسامہ بن لادن کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر امریکہ بہادر نے چڑھائی شروع کر دی یہ الگ بات ہے کہ امریکی سی آئی اے ہی اسامہ بن لادن کو افغانستان لائی تھی۔
افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد امریکہ نے ایک کٹھ پتلی حکومت بنا کر دوہزار چار میں ایک آئین بھی متعارف کروا دیا۔ اسی دوران افغانستان میں طالبان جو امریکی بمباری سے بچتے ہوئے روپوش ہو گئے تھے انہوں نے گوریلا وار کا آغاز کر دیا اور سب اکھٹے ہونے لگے۔ امریکہ اپنی تمام تر طاقت اور پیسے کے باوجود حالات کو نہ تو کنٹرول کر سکا اور نہ ہی طالبان پر غلبہ پا سکا۔ کسی نہ کسی صورت میں طالبان نے افغانستان کے تیس سے زائد فیصد حصہ پر اپنا کنٹرول جاری رکھا۔ ہر صوبے کے دارلحکومت پر افغان حکومت اور امریکہ کا کنٹرول تھا تو دور دراز علاقوں اور دیہاتوں میں طالبان کی حکمرانی رہی۔
اب جب امریکہ کو سمجھ آگئی کہ امریکہ اگلے سو سال بھی یہاں اپنے فوجی مرواتا رہے اور اربوں ڈالر پھونکتا رہے تو اسے کچھ ملنے والا نہیں ہے۔ تو اس نے وہاں سے فوری نکلنے کا فیصلہ کر لیا، امریکہ اب باہر سے بیٹھ کر تماشا لگانا دیکھنا چاہتا ہے۔ جہاں امریکہ یہ چاہتا ہے کہ اس کا افغانستان میں زیادہ سے زیادہ اثرورسوخ رہے جو لوکل سرداروں کی مدد کر کے اپنی مرضی کی حکومت بنوا کر حاصل کیا جا سکتا ہے اور دوسرا اس کے دشمن ملک چین، روس اور دیگر ممالک کو یہاں اپنے مفادات کا تحفظ اور اثرورسوخ قائم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔
بڑی طاقتیں ہمیشہ چھوٹے ملکوں میں اپنی مرضی کی پارٹیز کی مدد کر کے انہیں اقتدار دلواتی ہیں اور پھر اپنے اشاروں پر نچاتی ہیں تو یہی مقاصد اور طریقہ کار عالمی طاقتوں کا افغانستان میں ہے۔
امریکہ کو ساری دنیا چیخ چیخ کے کہہ رہی ہے کہ امن قائم کیئے اور کوئی سیاسی حل نکالے بغیر جانا افغانستان کی تباہی ہے لیکن امریکہ بہادر نہ کسی کی سن رہا اور نہ ہی وہ سننا چاہتا ہے، امریکہ سویت یونین کو افغانستان میں ہروا کر بھی ایسے ہی بھاگا تھا جیسے آج خانہ جنگی میں دھکیل کر جا رہا ہے۔
اب امریکہ کے حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ گروپو‏ں کو پیسے دے کر اپنے مفاد کے لئے بد امنی جاری رکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین روس پاکستان سمیت سینٹرل ایشین ممالک نے بھی افغانستان کے بغیر تجارتی راستوں پر غور شروع کر دیا ہے جو بظاہر مشکل ضرور ہیں لیکن کوئی متبادل نہ ہونے کی صورت میں بہت مفید ہیں۔ اس حوالے سے گولڈن رنگ اور ماسکو ٹو گوادر روٹ اہمیت کے حامل ہیں۔

اب بات ہو جائے کچھ افغانستان میں امریکہ کے انخلا کے بعد کی صورتحال پر۔ امریکہ کے جانے کے بعد تو کیا ۔۔پہلے ہی خانہ جنگی شروع ہو چکی ہے ۔ طالبان ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم مذاکرات کریں گے تو دوسری طرف وہ تیزی سے افغانستان پر قبضہ کی جنگ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ طالبان کو پتا ہے کہ انہوں نے ایک نہ ایک دن مذاکرات کی میز پر آنا ہی آنا ہے ۔ تو اس وقت جتنے زیادہ علاقے جس پارٹی کے پاس ہوں گے اسے اتنا ہی طاقتور کردار اور حصہ ملے گا۔ طالبان مزاکرات کیوں کرنا چاہتے ہیں جبکہ وہ افغانستان پر قبضہ کی طاقت رکھتے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ طالبان کو پتا ہے کہ اگر دنیا نے افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہ کیا تو وہ مدد جو دنیا اسے دے گی اور دے رہی ہے اور جو افغانستان کے مفاد میں ہے وہ بند ہو جائے گی، جس کے بغیر افغانستان کی تعمیر ممکن نہیں۔ دوسرا طالبان اپنی تمام تر طاقت کے باوجود بھی گزشتہ دور میں عبدالرشید دوستم سمیت کئی جرنیلوں کو سرنڈر کروانے میں ناکام رہے تھے ابھی بھی طالبان کابل پر تو قبضہ کر سکتے ہیں لیکن پورے افغانستان پر ممکن نہیں۔ اس لیے طالبان معاہدے کی بات کر رہے ہیں اور مزاکرات کی بھی۔
طالبان کی اصل طاقت پشتوں قبائل ہیں جبکہ افغانستان میں ساٹھ فیصد لوگ پشتون نہیں ہیں وہ دیگر قوموں سے تعلق رکھتے ہیں، طالبان نے انہیں ملانے کی کوشش کی ہے لیکن کسی بھی ملک میں کسی ایک جماعت کی سو فیصد مقبولیت ہونا ممکن نہیں اس لئے طالبان کو پتا ہے کہ ان کو ملائے بغیر اور ایک قومی حکومت کے بغیر افغانستان میں کبھی امن نہیں ہو پائے گا۔
لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جو افغانستان میں امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔
شیعہ طالبان پر ایران کا اثر و رسوخ ہے جبکہ پشتو ن طالبان پر پاکستان کے اثرورسوخ کی بات کی جاتی ہے جسے پاکستان کہتا ہے کہ وہ ایک محدود حد تک ہے کہ ان کے خاندان یہاں پاکستان میں رہتے ہیں۔
بھارت افغان نیشنل لیڈران جن میں امراللہ صالح، اشرف غنی، حامد کرزئی سمیت دیگر ہیں ان کو پیسے کی مدد اور ترقیاتی پراجیکٹس کی صورت میں کنٹرول کیئے ہوئے ہے۔ اور جہاں بھارت ہو گا وہاں پاکستان نہ ہو یہ ہو نہیں سکتا۔

اب افغانستان میں جس ملک کا حمایت یافتہ جتنا زیادہ مضبوط ہو گا اس کا افغانستان میں اتنا ہی اثرورسوخ ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ بھارت اربوں روپے پاکستانی کیش کی صورت میں کرائے کے قاتلوں کو خرید کر اور بلوچ قوم پرستوں کو پیسا دے کر پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کر رہا ہے اور وہ ایسا اس لئے کر پا رہا ہے کہ اس کے ہمایت یافتہ گروپ کی افغانستان میں حکومت ہے۔ اس حکومت نے بھارت کو افغانستان میں کئی ہزار اہلکار اور گیارہ کونسلیٹ رکھنے کی اجازت دی ہوئی تھی کہ وہ پاکستان کے خلاف جو مرضی کرے۔ اب جبکہ طالبان زیادہ تر علاقوں میں قبضہ کر رہے ہیں تو انہیں پاکستان کی بلوچستان میں سرحد کے قریب واقع شہروں سے اربوں روپے پاکستانی کیش گھروں میں مل رہا ہے جسے پاکستان کے خلاف شر انگیزی پیدا کرنے کے لیئے استعمال کیا جا رہا تھا۔ اور یہ بھارت کے علاوہ ہم سے اتنی محبت کرنے والا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اور اب طالبان یقینا بھارت کو یہ کھیل نہیں کھیلنے دیں گےجس کی وجہ سے پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہو سکتی ہیں۔ اب دشمن اپنی کھوئی ہوئی طاقت کی وجہ سے مرتے سانپ کی طرح پھڑپھڑا رہا ہے اس نے پاکستان کی سر زمین پر حملے تیز کر دیئے ہیں جو اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ دم توڑنے سے پہلے زور لگا رہا ہے۔
افغانستان میں عالمی طاقتوں کے کھیل اور گریٹ گیم جاری ہے۔اب یہ طالبان اور اشرف غنی کی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اس گریٹ گیم کا حصہ بنتے ہیں یا افغانستان اور افغانیوں کے لئے کوئی بہتر حل نکالتے ہیں۔

Leave a reply