افغانستان کے حالات کشیدہ کیوں؟ تحریر : ارشد محمود

افغانستان میں حالات کشیدہ سے کشیدہ ہوتے جارہے ہیں ۔ طالبان کا کنٹرول مضبوط سے مضبوط ہورہا ہے ۔ افغان حکومت امریکا و دیگر ریاستوں کی مدد و حمایت حاصل ہونے کے باوجود بےبس دکھائی دے رہی ہے ۔ طالبان اپنے پاؤں جماتے آگے بڑھ رہے ہیں اور افغان صدر بیانات داغ کر اپنا پلو جاڑ رہے ہیں۔ طالبان کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ انھوں نے عین عیدالاضحٰی کی نماز کے وقت صدارتی محل ہے قریب راکٹ فائر کردئیے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان افغان حکومتی کارندوں کے کس قدر قریب ہیں ۔ اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ افغانستان میں کوئی بھی حکومت اس وقت تک کام یاب نہیں ہوسکتی جب تک طالبان اسے کام یاب نہ کریں۔ جب راکٹ حملے ہوئے اس وقت افغان صدر اشرف غنی، نائب صدر امراللہ صالح اور افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سمیت کئی اہم عہدیدار صدارتی محل میں نماز عید ادا کررہے تھے۔ راکٹ حملے کے بعد خوف و ہراس کا پھیلنا لازمی بات تھی ۔ افغان صدر نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ طالبان نے ظاہر کردیا ہے کہ وہ امن کی خواہش نہیں رکھتے ۔ اب اسی بنیاد پر فیصلے کریں گے۔ ملک میں ملیشیا بنانے اور آمریت کی کوئی جگہ نہیں۔

افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ افغان عوام کو ابھی سکون میسر ہونے میں شاید مزید 10 سال کا عرصہ لگ جائے ۔ افغان حکومت طالبان کے آگے بے بس ہوکر جو اندرون خانہ دوسرے ممالک کے ساتھ ساز باز کررہی ہے وہ طالبان کو مزید اشتعال دلا رہی ہے ۔ بھارت سے سازباز کرنے میں جہاں افغان حکومت کافی حد تک آگے جانے کی کوشش میں ہے وہی پر بھارت طالبان سے ڈر کر محتاط ہوچکا ہے ۔ پاکستان کو گھیرنے کی بھارتی خواہش مٹی تلے دفن ہوچکی ہے کیوں کہ افغانستان میں طالبان کا مستحکم ہونا بھارتی خوابوں کو ملیامیٹ کرنے کے لیے نہ صرف کافی ہے بلکہ وہ بھارت کے لیے سردرد بھی ہے ۔ بھارتی اربوں روپے کی سرمایہ کاری طالبان کے قبضے میں جارہی ہے اور بھارت کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے ۔ طالبان کی نظر شاید اب بھارتی مقبوضہ علاقہ جات کی طرف بھی مبذول ہوجائے کہ بھارت نے ایک طرح سے طالبان سے ٹکر لینے کی کوشش کی ہے ۔ پاکستان اس وقت اپنے بہ ترین خارجہ پالیسی پتے کھیل رہا ہے ۔ موجودہ حکومت اگر ایک اور بار اپنی حکومت بنانے میں کام یاب ہوجاتی ہے تو شاید پاکستان صحیح معنوں میں ایشین ٹائیگر بن کر ابھرے

Comments are closed.