افغانستان.غلطی کی گنجائش نہیں. تحریر:نوید شیخ
پاکستان کی سات ہزار میں سے ساڑھے ہانچ ہزار کلومیٹر سرحدیں بھارت اور افغانستان کے ساتھ ہیں جو کسی طور پر بھی محفوظ اور دوستانہ نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا ہے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان کے بری طرح براہ راست متاثر ہو گا۔ ابھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ افغانستان میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ بیٹھے گا بھی یا نہیں۔ ۔ دوسری جانب بھارت نے جموں،کشمیر اور لداخ پر غاصبانہ قبضہ کرکے جنونی بھارتی قیادت خطہ کے حالات کو لہو لہان کردینا چاہتی ہے۔ ۔ تیسری طرف (FATF) نے پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں رکھ کر عالمی پریشر برقرار رکھا ہے۔ ۔ چوتھا اقتصادی طور پر پاکستان بدستور آئی ایم ایف کی کالونی بنا ہوا ہے۔۔ یہ بہت مشکل صورت حال ہے جس سے ملک کو بچنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
۔ اس وقت بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت میں بھی ایسے لوگ ہیں اور اپوزیشن میں بھی ایسے لوگ ہیں ۔ جو اپنے اپنے کام سے ناواقف نظر آتے ہیں۔ حکومت والوں کا لہجہ اپوزیشن کا سا ہے اور اپوزیشن کا حکومت کا سا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے ہماری جمہوریت آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے بھاگنے میں لگی ہے۔ میری نظر میں اگر اس وقت پاکستان کا کوئی سب سے بڑا مسئلہ ہے تو وہ ہے افغانستان کی موجودہ صورتحال ۔ کیونکہ آنے والوں سالوں اور دہائیوں میں جو بھی افغانستان کے حالات ہوں گے وہ پاکستان پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوں گے ۔ مگر دوسری چیزوں کی طرح اس معاملے پر بھی ہمارے سیاستدانوں کو کچھ ادراک نہیں کہ کیا ہو رہا ہے یا ہونے والا ہے ۔ رہی بات عوام کی تو وہ بھی لگتا ہے صرف ٹک ٹاک بنانےاور دیکھنے میں لگی ہے ۔ کسی کو کچھ اندازہ نہیں کہ ہمارے دروازے پر کیا مصیبت دستک چکی ہے ۔ معاملہ یہ ہے کہ افغانستان کے حوالے سے کوئی بھی بے ڈھنگا فیصلہ ملک کو ایک بار پھر شدید بحران سے دوچار کرے گا۔ قومی معیشت ویسے ہی کمزور ہے۔ کورونا وائرس نے بھی حالات کی خرابی میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اب اگر افغانستان کے حوالے سے کوئی مہم جوئی ہوئی تو پاکستان کے لیے معاملات کو سنبھالنا انتہائی دشوار ہو جائے گا۔ ساتھ ہی یہ بیانیے کا دور ہے اور انٹرنیشنل محاذ پر ہم ابھی تک وہ بیانیہ نہیں تشکیل دے پائے جو کہ دینا چاہیے تھا ۔
۔ آپ دیکھیں افغان فوج کا مورال گرا ہوا ہے اور اس معاملے میں افغانستان کے صدر پاکستان پر الزام تراشی کا موقع ضائع نہیں کر رہے۔ سوال یہ ہے کہ بیس سال تک امریکا اور اُس کے اتحادیوں سے بھرپور امداد پانے کے باوجود افغان فوج کو اب تک اتنا مضبوط کیوں نہیں کیا جاسکا کہ وہ اتحادی افواج کے بعد ملک کو بہتر طور پر سنبھال سکے؟ اب یہ سوال کوئی نہیں اُٹھا رہا ہے اور ایک بار پھر سارا ملبہ پاکستان پرڈالنے کی تیاری ہو رہی ہے ۔ اور شاید عنقریب آپکو پھر سے یہ سننے کو ملے کہ DO MORE ۔ پاکستان کے لیے ایک بار پھر فیصلے کی گھڑی آگئی ہے۔ اہم ۔۔۔ پیش رفت ۔۔۔ یہ ہے کہ پاکستان اور وزیراعظم عمران خان کھل کر اور واضح پر سامنے آچکے ہیں کہ کسی بھی صورت میں پاکستان اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دے سکتا۔ چاہے وہ طالبان کے لیے ہو یا پھر امریکہ کے لیے ۔ پاکستان افغانستان میں کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کا مخالف بھی ہے۔ ساتھ ہی پاکستان افغانستان میں خانہ جنگی نہیں چاہتا وہاں مستقل اور پائیدار امن چاہتا ہے اور اسکے لیے ہر حد تک جانے کے لیے بھی تیار ہے۔ پاکستان افغانستان میں عوامی تائید سے بننے والی حکومت کی حمایت کا اعلان کر چکا ہے۔ یقینی طور پر یہ بڑا اچھا فیصلہ ہے ۔ ۔ پر اصل مسئلہ عالمی طاقتوں کا ہے سب کو اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں ۔ کیونکہ چین اور روس کے مفادات اپنی جگہ ہیں امریکہ کے مسائل اور اس کی ضروریات اپنی جگہ ہیں اس میں یہ تو طے ہے کہ ان تمام ممالک کو ہر حال میں پاکستان کی ضرورت ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان جائے تو جائے کہاں ۔ یعنی ایک آگے کنواں ہے تو پیچھے کھائی ہے ۔ ۔ اس حوالے سے حکومت کی واضح پالیسی بڑی اچھی بات ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دے سکتا۔ مگر اس حوالے سے دنیا کو قائل کرنا ، دنیا کو سمجھنا اتنا ہی ضروری ہے ۔ جتنا ایک اچھا فیصلہ کرنا ہے ۔
۔ کیونکہ اس نئی جنگ کے پس منظر بہت سے ممالک اپنی دشمنیاں بھی نبھا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہم کو چوکنا اور ہوشیار بھی رہنا ہے کہ کہیں افغانستان کے ساتھ ساتھ خدانخواستہ پاکستان ان کی نئی
battle groundنہ بن جائے ۔ کیا آپ نے نوٹس کیا ہے گزشتہ چند دنوں میں پاکستان میں ایک بار پھر دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے ۔ کیا ایک بار پھر سے بڑے شہروں اور سیکورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ شروع ہوگیا ہے ۔ ان تمام چیزوں پر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے اور ان سدباب کرنا بھی بہت ضروری ہے ۔ عمران خان کہتے ہیں کہ امریکا جس طور بھارت سے روابط رکھتا ہے بالکل اُسی طور پاکستان کو بھی جگہ دے۔ وزیراعظم شاید بھولتے ہیں کہ بھارت نہ صرف یہ کہ بڑی منڈی ہے بلکہ دنیا کو بڑی تعداد میں ورک فورس فراہم کرنے والا ملک بھی ہے۔ بھارت کسی بھی طاقت سے اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں ہے۔ بدقسمی سے ہم نہیں ہیں ۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ اندرونی اختلافات اور تضادات سے جان چھڑانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکے۔ ۔ دوسری جانب بات سخت ہے پر آپ دیکھیں کہ پاکستانی سیاست کے کردار ایک دوسرے کے ساتھ چلنے اور ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن افغانستان میں اشرف غنی اور طالبان کو دن رات سیاسی حل تلاش کرنے کے مشورے دیے جا رہے ہیں۔ امریکہ تک کو عقل کے ناخن فراہم کرنے کے لیے سرگرمی دکھائی جا رہی ہے۔ لیکن یہی ناخن حکومت ، عمران خان ، نواز شریف ، زدراری یا دیگر اپنے استعمال میں لانے کو تیار نہیں ہیں ۔
۔ عمران خان نے اپنے انٹرویو میں انتہائی اعتماد کے ساتھ یہ بات تو کر دی ہے کہ طالبان سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ کابل پر قبضہ نہ کریں۔ لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا طالبان وزیراعظم عمران خان کی بات مان لیں گے کیا طالبان، القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند گروہ اپنے وہ اہداف ترک کر دیں گے۔ جن کے لئے وہ دہائیوں سے لڑ رہے ہیں؟۔ اس لیے اس چیز کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ طالبان کی قوت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف وہ دارالحکومت کابل کے دروازے تک پہنچ گئے ہیں اور دوسری طرف افغان قیادت امریکا کے در پر گری ہوئی ہے۔ معاملات بالکل واضح ہیں۔ ۔ افغان قیادت چاہتی ہے کہ امریکا اپنی افواج کا انخلا مکمل ہو جانے کے بعد کی صورتِ حال کے حوالے سے ضامن کا کردار قبول کرے۔ طالبان پر قابو پانا تنہا افغان قیادت یا فوج کے بس میں نہیں ہے ۔ ایسے میں صدر اشرف غنی امریکا اور یورپ سے کوئی باضابطہ ضمانت چاہتے ہیں کہ طالبان کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کی جاتی رہے۔ ۔ پر سوال یہ ہے کہ امریکا کیوں چاہے گا کہ فوج نکالنے کے بعد بھی اس کا افغانستان کے معاملات سے کچھ تعلق رہے؟ اور بالخصوص ایسا تعلق جس میں ذمہ داری بھی نمایاں ہو؟ ۔ صاف ظاہر ہے کہ موجودہ افغان حکومت کا انجام بھی سویت افواج کے انخلا ء کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کی طرح ہونے والا ہے ۔ اس کے بعد امریکہ کے تشکیل کردہ داعش و القاعدہ گروہوں کے افغان طالبان کے ساتھ تصادم کی صورت میں ایک بڑی خانہ جنگی کا خطرہ ہے ۔ جس کے شعلوں سے پاکستان سمیت افغانستان کے دیگر ہمسائے کسی صورت محفوظ نہیں رہ سکتے ۔ شاید امریکہ کی خواہش بھی یہی ہے کہ افغانستان بدامنی کے دلدل میں دھنسا رہے۔ کیونکہ جتنا اس خطے میں انتشار ہوگا چین کے سی پیک اور روس کے مفادات کو نقصان پہنچاتا رہے گا ۔ تو ہم کو سمجھنا چاہیے کہ افغانستان میں خانہ جنگی امریکہ کے مفاد میں ہے اور وہ حالات کو اس جانب ہی موڑ رہا ہے کہ افغانستان خوفناک اور خون خوار خانہ جنگی کا شکار ہو جائے ۔ ۔ کیونکہ جوبائیڈن کا یہ بیان بڑا معنی خیز اور پریشان کن ہے ۔ کہ ہم افغانستان سے جارہے ہیں۔ اب اپنی تقدیر کا فیصلہ افغانوں کو خود کرنا ہوگا۔ افغان قیادت کے لیے یہ ٹکا سا جواب راتوں کی نیندیں اڑانے دینے کو کافی ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے پریشانی کا سامان ہوسکتا ہے۔ کیونکہ افغانستان میں حالات خراب ہیں۔ ۔ اشرف غنی کی قیادت میں وہاں کی سیاسی قیادت شدید بے یقینی کا شکار ہے۔ اُس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا کہ مغرب کے مکمل انخلا کے بعد طالبان سے کیونکر نمٹا جاسکے گا۔
۔ اس لیے اب پاکستان کو افغانستان کے حوالے ہر فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔ معمولی سی غلطی ایک بار پھر ہمیں داخلی سلامتی کے بحران سے دوچار کرسکتی ہے۔ لازم ہوچکا ہے کہ ہر پالیسی بہت سوچ سمجھ کر اپنائی جائے اور کسی بھی فریق کو بے جا طور پر نوازنے یا اُس سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ رکھنے سے گریز کیا جائے۔۔ اس لیے وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی اور غیر سیاسی سٹیک ہولڈرز افغان معاملے پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایسی پالیسی بنائیں کہ پاکستان نقصان سے بچ جائے ۔ ورنہ نوشتہ دیوار اب سامنے لکھا دیکھائی دینے لگا ہے ۔ کیونکہ پاکستان ایک بار پھر تاریخ دو راہے پر کھڑا ہے۔ کیونکہ افغانستان میں امن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک تمام فریق مطمئن و متفق نہیں ہونگے ۔ ورنہ امریکہ چلا جائے یا کوئی اور آ جائے۔ افغانستان میں امن نہیں آئے گا۔