افغانستان کی سالمیت، خود مختاری کا احترام کرتے ہیں،وزیر خارجہ

0
68

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان طویل عرصے سے جنگ میں رہا

افغانستان صورتحال، 6 ملکی علاقائی ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغانستان کےعوام 40 سال سے مشکلات کا شکار ہیں،افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہوئی،افغانستان سے متعلق تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں افغانستان میں تبدیلی ایک حقیقت ہے طالبان نےعبوری کابینہ کااعلان کیا ہے اگست میں ازبکستان ،تاجکستان ،ترکمانستان اور ایران کا دورہ کیا افغانستان میں ہونے والی تبدیلی کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے،افغانستان کی صورتحال پیچیدہ اورمشکل ہے ،افغانستان کی سالمیت، خود مختاری کا احترام کرتے ہیں،افغانستان کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا ہے ،ہمیں افغانستان اور وہاں کے عوام کے ساتھ تعاون کرناہوگا، یقینی بنایا جائے افغان سرزمین کسی کیخلاف استعمال نہیں ہوگی عالمی برادری مشکل وقت میں افغانستان کا ساتھ دے،

افغانستان کی صورتحال پر وزارتِ خارجہ میں علاقائی وزرائے خارجہ ورچوئل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا،کانفرنس کی میزبانی پاکستان نے کی ورچوئل کانفرنس میں چین، ازبکستان، ترکمانستان ،تاجکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی ، وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا علاقائی وزرائے خارجہ ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں آپ سب کو افغانستان کے ہمسایوں کے پہلے وزارتی اجلاس میں شرکت پر خوش آمدید کہتا ہوں، آپ سب کے افغانستان میں درپیش صورتحال پر علاقائی انداز فکر اختیار کرنے کی ہماری تجویز پر اپنے مثبت ردعمل کا اظہار کرنے پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں ، میں نمائندگان وخصوصی نمائندگان کا بھی شکریہ ادا کرتاہوں جن کی بھرپور محنت سے آج کے اجلاس کے لئے مضبوط بنیاد فراہم ہوئی، میں پرامید ہوں کہ آج کا ہمارا غوروخوض بارآور ثابت ہوگا، ہم افغانستان کی تاریخ کے ایک کلیدی و اہم مرحلے پر آج اس اجلاس میں شریک ہیں، گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے واقعات نے ہمارے خطے کو عالمی توجہ کا مرکز بنادیا ہے، صورتحال کس کروٹ بیٹھتی ہے، اس کے افغانستان ہمارے خطے اور عمومی طورپر دنیا کے لئے گہرے مضمرات ہیں، یہ واضح ہے کہ کسی کو بھی یہ گمان نہیں ہوسکا کہ حالات اس طرح تبدیل ہوں گے جس میں سیکیورٹی فورسز کا یوں ریت کی دیوار ثابت ہونا اور افغانستان کی حکومت کا ختم ہونا شامل ہے، قبل ازیں ہونے والے تمام اندازے اور پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں،

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں دہائیوں سے جاری خون خرابہ دہرایا نہیں گیا، طویل تنازعے اور خانہ جنگی کا امکان بظاہر ٹل گیا ہے، بہت خدشہ تھا کہ مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ہجرت ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا، اس کے باوجود صورتحال پیچیدہ اور غیرمستحکم ہے، ایک بات یقینی ہے کہ ہم سب افغانستان میں تبدیل شدہ حقیقت کے ساتھ تگ و دو میں مصروف عمل ہیں، طالبان نے عبوری حکومت کا اعلان کردیا ہے، ہم نے اس پیش رفت کو دیکھا ہے،ہمیں امید ہے کہ سیاسی صورتحال جلد ازجلد مستحکم ہوگی اور حالات بہتری کی طرف جائیں گے، نئی صورتحال متقاضی ہے کہ پرانی عینک ترک کر کے نئے تناظر کو دیکھا جائے، ایک حقیقت پسندانہ اور زمینی حقائق کے مطابق اندازِ فکر اپناتے ہوئے آگے بڑھا جائے، ہماری کوششوں کا بنیادی محور و مرکز افغان عوام کی فلاح وبہبود اور بہتری ہونا چاہیے، افغان عوام چالیس سال سے زائد عرصہ پر محیط تنازعے اور عدم استحکام سے بے پناہ متاثر ہوئے ہیں، 18 اگست 2021 کو میں نے چین کے سٹیٹ کونسلر اور وزیر خارجہ سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا، افغانستان میں رونما واقعات کے تمام چھ ہمسایہ ممالک کے لئے واضح مضمرات کے تناظر میں ہم نے قریبی رابطوں اور اشتراک پر اتفاق کیا، 24 تا 26 اگست 2021 کو میں نے تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران کا دورہ کیا، میں شکر گزار ہوں کہ ہم نے اس دورے کے دوران تفصیلی اور بڑی نتیجہ خیز گفتگو کی، ہم نے آگے بڑھنے کے ایسے طریقہ کار کی تیاری پر اتفاق کیا جس سے مشترکہ مسائل کے حل اور اُن امکانات کو عملی شکل دینے میں مدد ملے جو حالیہ پیش ہائے رفت سے پیدا ہوئے، سرحدوں کے ساتھ سلامتی کی صورتحال پر مشترک سوچ درکار ہے، اب تک ہماری ہونے والی مشاورت سے مختلف امور سامنے آئے،

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ افغان سرزمین کو دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانا، مہاجرین کی نئی لہر کے آنے کا امکان ہے ، منشیات اور کثیر القومی جرائم کی روک تھام کرنی ہو گی، انتہا پسند عناصر کے پھیلاؤ کے انسداد کرنا ہوں گے، کورونا وباء سے متعلق مشکلات ومسائل میں اضافہ ہو گا ہم بھی اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہوجائے تو اس کے بے پناہ ثمرات ہیں،محفوظ سرحدیں، افغان سرزمین سے دہشت گردی کے خطرے کا خاتمہ ہو،افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے امکانات ہیں معاشی استحکام اور عوام کے معیار زندگی میں بہتری آئے خطے کو جوڑنے کے منصوبہ جات کو تعبیر دینا اور علاقائی معاشی یکجائی میں اضافہ شامل ہیں، پُرامن، مستحکم، خوش حال اور باہم ایک دوسرے سے جُڑے خطے کی ہماری مشترکہ سوچ کو آگے بڑھانے کے لئے افغانستان کو آزمائش کی اس گھڑی سے نکلے اور اپنی بھرپور صلاحیت کو بروئے کار لانے کے قابل ہونا ہوگا، ہماری دانست میں کئی کلیدی نکات اور ترجیحات ہیں جو اس سمت میں ہماری کوششوں میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں، ہمیں افغان عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کرتے ہوئے ان کی حمایت کرنا چاہیے، ہمیں ایک متحد، خود مختاری اور جغرافیائی سالمیت کے حامل افغانستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کرنا ہوگا، ہمیں زور دینا ہوگا کہ افغان مسئلے کا افغان حل ہی ہونا چاہیے، ہمیں واضح کرنا ہے کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، ہمیں افغان کثیرالنسلی نوعیت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے قومی مفاہمت کی اہمیت پر زور دینا ہوگا، انسانی نوعیت کا بحران جنم نہ لے جس سے افغانوں کی مشکلات مزید بڑھ جائیں، یہ بھی اہم ہے کہ افغانستان کو معاشی تباہی سے بچانے کے لئے اقدامات کئے جائیں، انسانی نوعیت کے بحران کو جنم لینے سے روکا جائے اور معاشی استحکام کو یقینی بنالیا جائے تو امن کی بنیاد مستحکم ہوسکتی ہے اور بڑے پیمانے پر مہاجرین کی یلغار سے بچا جاسکتا ہے،عالمی برادری خاص طورپر اس کلیدی ونازک مرحلے پر اپنے رابطے برقرار رکھے، سفارتی اور عالمی موجودگی کی تجدید سے افغان عوام کو ایک نیا یقین واعتماد میسر آئے گا، اقوامِ متحدہ اور اس کے مختلف اداروں کے قائدانہ کردار میں انسانی نوعیت کی فوری امداد سے اعتماد سازی کے عمل کو نئی تقویت ملے گی، مالی وسائل تک افغانستان کی رسائی ملک کو مکمل انحطاط سے بچانے اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی میں کلیدی ہوگی،ہمارے آج کے غوروخوض سے افغانستان میں صورتحال کے بے شمار پہلوؤں پر ہماری مشترکہ سوچ کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی، ہماری تجویز ہوگی کہ ہمسایہ ممالک کے اس اہم پلیٹ فارم کو مستقل اور باضابطہ مشاورتی نظام میں بدل دیاجائے، مستقبل میں افغانستان کو اس میں مدعو کرنے پر بھی سوچا جاسکتا ہے، افغانستان کی اس میں شمولیت سے فورم کے مؤثر ہونے اور افغانستان میں پائیدار امن واستحکام کے ہمارے مشترکہ مقاصد پر پیش رفت کو تقویت ملے گی،افغانستان کے استحکام میں ہمسایہ ممالک کا براہِ راست مفاد ہے، عالمی برادری کے لئے ہماری مشترکہ آواز پرامن، مستحکم اور خوش حال افغانستان کے پیغام کو تقویت دے گی،

قطر کے نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ طالبان سے رابطے ختم نہیں کریں گے درمیانی راستہ اختیار کریں گے، افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ عالمی برادری نہیں افغانوں کو کرنا چاہیے افغانستان کی نئی قیادت نے کچھ اچھے اقدامات بھی کیے کابل سے انخلا طالبان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا،

قبل ازیں گزشتہ روز طالبان نے افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل کا اعلان کر دیا ترجمان طالبان ذبیح اﷲ مجاہد نے نئی افغان حکومت اور کابینہ کا اعلان کرتے کہا کہ نئی اسلامی حکومت کے قائم مقام وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند ہوں گے۔ ملا عمر کے بیٹے عبدالغنی برادر قائم مقام نائب وزیراعظم‘ ملا امیر خان متقی کو وزیر خارجہ مقرر کیا گیا ہے۔ مولوی یعقوب مجاہد قائم مقام وزیر دفاع‘ قاری دین حنیف قائم مقام وزیر خزانہ‘ ملا عبدالحق وثیق این ڈی ایس کے سربراہ بنا دیئے گئے۔ قاری فصیح الدین افغانستان کے چیف آف آرمی سٹاف‘ سراج الدین حقانی قائم مقام وزیر داخلہ‘ ملا ہدایت اﷲ وزیر مالیات ہوں گے۔

سابق صدر حامد کرزئی، عبد اللہ عبداللہ کو طالبان نے نظر بند کردیا

جنہوں نے حملہ کیا وہ اس کی قیمت چکائیں گے، جوبائیڈن کا کابل دھماکوں پر ردعمل

امریکی فضائیہ کے طیاروں کی پاکستانی فضائی حدود میں پرواز

کابل ایئر پورٹ، مزید دھماکوں کا خدشہ برقرار،دو ممالک کا انخلا ختم کرنیکا اعلان

امریکا کا افغانستان کے شہرجلال آباد پر فضائی حملہ

کابل ائیرپورٹ پر راکٹ حملوں کو دفاعی نظام کے زریعے روک لیا ،امریکی عہدیدار

ملا عبدالغنی برادر نے کابل کی فتح پر مبارکبادی پیغام جاری کر تے ہو ئے کہا ہے کہ ‏افغانستان کی پوری مسلم ملت باالخصوص کابل کے شہریوں کو فتح پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اللہ کی مدد و نصرت سے یہ کامیابی حاصل ہوئی ہے اللہ کا ہر وقت عاجزی کے ساتھ شکر ادا کرتے ہیں۔ کسی غرور اور تکبر میں مبتلا نہیں ہیں ملا عبدالغنی برادر نے کابل کی فتح پر مبارکبادی پیغام جاری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ‏طالبان کا اصل امتحان اور آزمائش اب شروع ہوئی ہے کہ وہ کیسے افغان عوام کی خدمت کرتے ہیں اور دنیا کے لیے ایک ایسی مثال بنتے ہیں، جس کی باقی دنیا پیروی کرے

Leave a reply