افغانستان میں ترکی کا کھیل بے نقاب۔ ایسے نہیں چلے گا، تحریر:راؤ اویس مہتاب

0
27

ترکی کابل ائیر پورٹ کا کنٹرول حاصل کر کے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں سے کیا مراعات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ترکی کیوں سمجھتا ہے کہ وہ طالبان کی مخالفت کے باوجود ایسا کر لے گا۔ اس کے پاس امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان میں کس قسم کی طاقت بچ جائے گی اور طالبان اس وقت افغانستان میں کیا اور کس طرح پیش رفت کر رہے ہیں۔ اور امریکہ اس وقت افغانستان میں کس حد تک بے بس ہو چکا ہے۔
افغانستان میں بدلتے ھالات نے اس وقت امریکہ سے لے کر چین تک اور بھارت سے لے کر روس تک سب کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔
امریکہ معاہدے کے باوجود پریشان ہے کہ اگر طالبان نے ان کے جانے کے فورا بعد کابل پر قبضہ کر لیا تو دنیا بھر میں ان کی بڑی سبکی ہو گی۔ جب روس نے افغانستان پر قبضہ ختم کیا تو انہوں نے کابل کی لوکل حکومت کو تین سال تک اقتدار قائم رکھنے کے لیئے سپورٹ کیا کیونکہ یہ روس کی عزت کا معاملہ تھا کہ اس کی حمایت یافتہ حکومت کچھ عرصہ بھی نہ چل سکی۔ لیکن جیسے ہی روس نے اس حکومت کی سپورٹ کم کی اس کا تختہ پلٹ دیا گیا۔لیکن آج امریکہ کے لیئے اس سے بھی زیادہ سنگین صورتحال ہے۔ امریکہ کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر کابل پر طالبان نے فوری قبضہ کر لیا تو شائد یورپ اور امریکہ کو اپنے سفارت خانے چلانا بھی مشکل ہو جائے اور اس کے ہاتھ سے سب کچھ نکل جائے۔

امریکہ اپنے سفارت خانے کی حفاظت کے لیئے چھ سو فوجی چھوڑ رہا ہے جس کو ایک جنرل لیڈ کرے گا جو امریکی سفیر کے ماتحت ہو گا۔لیکن اگر کابل ائیر پورٹ پر قبضہ ہو جاتا ہے تو امریکی نہ افغانستان سے نکل سکتے ہیں اور نہ ہی آ سکتے ہیں ایسی صورت میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیئے صورٹھال بہت خراب ہو جائے گی۔ ترکی پر امریکہ کی پابندیوں کا بہت پریشر ہے اور ترکی اپنے تعلقات امریکہ سے ٹھیک کرنا چاہتا ہے۔ اس لیئے ترکی کی طرف سے ایک پروپوزل آیا ہے کہ اس کی افواج کابل ائیر پورٹ کو کنٹرول سنبھالیں گی تاکہ افغانستان کی Air space میں امریکہ کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ ترکی دوہزر تین سے افغانستان میں موجود ہے لیکن اس نے لڑائی میں حصہ نہیں لیا بلکہ اس کے بدلے وہاں Administration Education Health اور پولیس ٹریننگ میں کام کیا اسی لیئے طالبان نے بھی ترکی کی افواج پر حملہ نہیں کیا۔

لیکن اب صورتحال اس لیئے گھمبیر ہو گئی ہے کہ طالبان کی مرضی کے بغیر ترکی کابل ائیر پورٹ کا کنٹرول سنبھالنا چاہتا ہے۔ تاکہ افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے ساتھ ساتھ ، یورپ اور امریکہ کو مدد فراہم کرے ان سے دیگر مراعات حاصل کی جا سکیں۔
ایک تو امریکہ نے ترکی کے خلاف ہیومن رائٹ کے معاملے میں میدان گرم کیا ہو اہے۔دوسرا روس سے لیئے گئے S400 پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ تیسرا Mediterranean sea میں Greace سے تنازعات کی صورت میں یورپ سے تعلقات خراب ہیں۔ ان سب معاملات کو حل کرنے کے لیئے ترکی یورپ اور امریکہ کی افغانستان میں مدد کرنا چاہتا ہے۔اگر یورپ اور امریکہ کے افغانستان میں Diplomatic presence ترکی کی محتاج ہو جائے تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ ترکی کو کیا فائدہ ہو گا۔ جبکہ افغانستان میں نیٹو کے زیر اثر گزشتہ بیس سال مین افیم کی گاشت میں بیس گنا اضافہ ہو چکا ہے اور دنیا میں افیم کی تجارت کا 80% افغانستان سے جا رہا ہے۔ امریکہ کے اس منڈی میں مفادات کا تحفظ افغانستان کی Air space پر کنٹرول حاصل کیئے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترکی یہ سب کیسے کرے گا۔ ترکی نے گزشتہ کئی سالوں میں اٖفغانستان میں مسجدیں تعمیر کی ہیں اور وہاں سکول بنائے ہیں اور وہاں ترکی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔ ترکی نے افغانستان میں اپنا Soft image بنانے میں کافی انویسٹ منٹ کی ہے۔ ساتھ میں ترکی کا قطر میں فوجی اڈا ہے اور قطر کو سعودی عرب کے خلاف ترکی نے کافی مدد فراہم کی ہے۔ قطر میں طالبان کا آفس ہی نہیں بلکہ قطر نے ایک Pro Qatar Taliban group بھی تشکیل دیا ہے، جس کی سربراہی Gen rasheed dostum کر رہا ہے اور یہ Uzbak origion کے افغان طالبان ہیں۔ ترکی قطر کے اثرو رسوخ کو بھی اس مقصد کے لیئے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جبکہ طالبان کو خدشہ ہے کہ اگر ائیر پورٹ ترکی کے کنٹرول میں ہو گا تو بغیر کسی زمینی سفر کے امریکہ اور اس کے اتحادی۔۔ فوج اور دیگر ایکسپرٹ کی صورت میں Infiltrate کر سکتے ہیں۔

اس وقت افغانستان کے حوالے سے جھوٹ اور افواوں کا بازار بھی گرم ہیں اور کئی مفاد پرست ٹولے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پراپیگنڈا کر رہے ہیں اور اس میں سب سے برا ٹارگٹ سچ اور حقیقت ہے جس کو برے طریقے سے مسخ کیا جا رہا ہے۔ وہ لوگ جو افغان میں امریکی قبضہ کے بڑے Banificiary ہیں کبھی عورت کی آزادی پر شور مچا رہے ہیں تو کبھی اقلیتوں کے حقوق کا تو کبھی امریکی سلامتی کا۔۔ لیکن پس پردہ ان کے اپنے مفادات ہیں۔ لیکن افغانستان کے مسائل کا حل صرف اور صرف وہاں کے زمینی حقائق دیکھ کر وہاں کے لوگ ہی حل کر سکتے ہیں۔ پہلے پاکستان پر پریشر ڈالا گیا کہ وہ طالبان کو امریکی شرائط پر امن معاہدہ کرنے پر راضی کر یں تو پھر اشرف غنی جیدے دیگر مفاد پرست ٹولے نے پاکستان کے خلاف ہی ہرزہ سرائی کرنا شروع کر دی۔ اشرف غنی نے یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ کے جانے کے بعد امریکہ کا کردار بہت محدود ہو جائے گا لیکن افغانستان مین امن اور جنگ پاکستان کے ہاتھ میں ہو گا۔ آپ افغانستان کی تاریخ پر نظر ڈال کر دیکھ لیں یہاں کبھی بھی ائینی طور پر ایک سینٹرل حکومت صرف آئین کی بنیاد پر نہیں قائم ہو سکتی اس سے پہلے اگر سو سال سے زیادہ Ahmadzai/Muhammadzai monarchy نے حکومت قائم کی تو وہ بھی confederation of tribesتھی جس میں پشتونوں نے انہیں طاقت فراہم کی۔ طالبان ایک بہت بڑی فورس ہے اور اس کے بغیر نہ تو افغانستان میں مفاہمت ہو سکتی ہے اور نہ ہی امن۔۔

افغانستان میں عورتوں کے حقوق پر بہت شور مچایا جاتا ہے۔۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ افغان سوسائٹی میں ایک عورت کو بحثیت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی نہ صرف عزت دی جاتی ہے بلکے ان کی حفاظت بھی کی جاتی ہے اور ہر کوئی اپنا ایک مخصوص مقام رکھتا ہے۔
امریکہ بظاہر اپنی فوجین افغانستان سے نکال رہا ہے لیکن Academi جس کا پرانا نام بلیک واٹر ہو ۔۔ افغانستان میں مسلحہ افراد کی بھرتی کر رہا ہے۔ امریکہ، فرانس اور جرمنی احمد شاہ مسعود کے بیٹے کی ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں تاکہ اس کے نیٹ ورک سے
intelligence-gathering کا کام لیا جائے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ کابل ہی حفاظت اشرف غنی کے اقتدار کو بچانے کے لیئے کرنا چاہتا ہے اور اشرف غنی جو پاکستان کا دشمن ہے اسے بچانے کے لیئے امریکہ کو اڈے دینا کون سی عقل مندی ہو گی۔ اس وقت طالبان کو چیلن کرنے والون میں امریکہ کے حمایت یافتہ کچھ طاقتور قبائل، ISIS, RAW, NDS ہیں جن کا حشر بھی وہی ہو گا جو نیٹو افواج کا ہوا اور افغانستان میں اس وقت اگر کوئی امن قائم کر سکتا ہے یا متحد کر سکتا ہے تو وہ صرف طالبان ہیں۔ اور ایسے وقت میں طالبان کو دھوکہ دینے کا مطلب ہے کہ پاکستان میں دوبارہ سے تحریک طالبان جیسے گروپوں کی پرورش جس کا صرف اور صرف فائدہ بھارت کو ہی ہو گا۔. جبکہ طالبان نے کہا ہے کہ جب آقا ہار گئے تو غلام کیا جنگ لڑیں گے۔ یعنی امریکہ کو ہرا دیا تو اس کی حمایت یافتہ افغان فورسس کیا لڑیں کی ۔ آئے روز خبریں آ رہی ہیں کہ افغان فورسسز پوری پوری فوجی چھاونیاں بمہ اسلحہ چھوڑ کے بھاگ رہے ہیں ہیں اور یہ سب چیزیں طالبان کے کنٹرول میں آرہی ہیں۔غیر ملکی افواج کے انخلاء اور امریکی فضائی تعاون سے جلد ہی محروم ہو جانے کے نتیجے میں افغان حکومتی فورسز کی ناکامی کا خدشہ بڑھ گیا ہے جبکہ طالبان کمانڈر ملک پر جلد ہی مکمل کنٹرول کر لینے اور اپنے نظریے کے مطابق اسلامی ریاست دوبارہ قائم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔

امریکی افواج کے مئی میں حتمی انخلا کے آغاز کے بعد سے اب تک انہوں نے تقریباً تیس اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ غزنی صوبے کے ایک طالبان کمانڈر ملّا مصباح کا کہنا ہے کہ مغرور امریکیوں کا خیال تھا کہ وہ دھرتی سے طالبان کا نام و نشان مٹا دیں گے۔ لیکن طالبان نے امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کو شکست دے دی جب امریکی یہاں سے چلے جائیں گے تو وہ (حکومتی فورسز) پانچ دن بھی ٹک نہیں پائیں گی۔ جب آقاوں کو شکست ہو چکی ہے تو غلام اسلامی امارت کے خلاف جنگ نہیں کر سکتے۔ طالبان نے حالیہ ہفتوں کے دور ان غزنی کے دو اہم اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ اہم صوبہ طالبان کے سابقہ مضبوط گڑھ قندھار کو ایک شاہراہ کے ذریعہ دارالحکومت کابل سے ملاتا ہے طالبان کی فوجی کامیابیوں نے ان خدشات کو تقویت فراہم کی ہے کہ امریکی اور ان کے دیگر اتحادیوں کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد وہ ملک کے تمام شہروں پر بھر پور حملے کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ افغانستان کے لیے یورپی یونین کے خصوصی نمائندے تھامس نکلسن نے افغانستان میں کشیدگی میں اضافے سے متنبہ کرتے ہوئے دوحہ مذاکرات میں جلد از جلد پیش رفت کی ضرورت پر زور دیا۔ آنے والے چند ہفتوں اور مہینوں میں ہم بد قسمتی سے کشیدگی میں اضافہ دیکھ سکتے ہیں اس سے نہ صرف میدان میں بلکہ مذاکرات میں بھی پیچیدگیوں میں اضافہ ہو گا۔

Leave a reply