افغانستان کیسے دنیا کا امیر ترین ملک بن سکتا ؟ تحریر: راؤ اویس مہتاب

0
104

آج کی اس تحریر میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ افغانستان کیسے دنیا کا امیر ترین ملک اور پاکستان کیسے دنیا کی سب سے اہم منڈی بن سکتا ہے۔ جبکہ چین کیوں امریکہ کی حماقتوں پر خوش ہے اور آنے والے دن کیسے اس خطے کی قسمت بدلنے والے ہیں۔ افغانستان کے بارے میں جو بات ہم بار بار سنتے ہیں وہ یہ ہے کہ افغانستان سپر پاورز کا قبرستان ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی افغانستان کے حوالے سے کئی چیزیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اس وقت چین امریکی صدر بائیڈن کے غلط فیصلوں پر قہقے لگا رہا ہے۔ جہاں بھارت یہ شور مچا رہا ہے کہ پاکستان اس جنگ میں سب سے بڑا فاتح ہے وہاں دنیا کے بڑے معاشی ملک یہ کہہ رہے ہیں کہ چین طالبان کے زیر قبضہ دولت کو استعمال کر کے اپنی طاقت میں حیران کن اضافہ کر سکتا ہے۔کیا آپ کو پتا ہے کہ امریکہ سمیت یورپ میں 2030 کے بعد شائد ہی کوئی ایسی گاڑی ہو جو الیکٹرک نہ ہو اور پٹرول سے چلتی ہو اس کی وجہبڑھتی ہوئی Pollution سمیت ماحولیات سے دنیا کو لاحق خطرات سے نبٹنا ہے اور جب دنیا کی سب گاڑیاں خاص طور پر مغربی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک میں الیکٹرک ہو جائیں گی تو انہیں چلانے کے لیے پٹرول کی بجائے۔ طاقتور بیٹریوں کی ضرورت ہو گی۔
آج گاڑی چلانے کے لیے جتنا اہم سعودی عرب کا پٹرول ہے دس سال بعد وہ اہمیت بیٹریاں بنانے والی دھاتیں لے لیں گی۔

اور دھات وہ چیز ہے جسے فیکٹریوں میں نہیں بنایا جا سکتا بلکہ معدنیات کے طور پر زمین سے نکالا جاتا ہے۔ بیٹری ایک دھات لیتھیم سے بنتی ہے ۔ اور دنیا بھر میں لیتھیم کی ڈیمانڈ میں دوہزار چالیس تک چالیس گنا اضافہ ہو جائے گا۔clean energy technologiesکے لیے جن اہم منرلز کی ضرورت ہےاس میں Solar PV
اور Electricity networks بنانے کے لیے کاپر، ایلومینیم جبکہ EVs and battery storage کے لیئے کاپر، نکل کوبالٹ،لیتھیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ معدنیات آج کی ماڈرن انڈسٹری کی Backbone ہیں۔کیا آپ کو پتا ہے کہ پینٹا گون کی ایک اسٹڈی کے مطابق افغانستان کے چونتیس میں سے صرف ایک صوبے غزنی میں$1 trillion
کےuntapped mineral depositsموجود ہیں۔جبکہ اس سے پہلے ہونے والی اسٹڈیز کے مطابق افغانستان میںiron, copper, cobalt, goldاور دیگر ایسے منرل جس میں
Lithiumبھی شامل ہے کے بڑے خزانے ہیں۔ جو آج کی ماڈرن انڈسٹری کے لیے ضروری ہیں اور یہی چیز افغانستان کو دنیا کے سب سے اہم Mining centers
میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ ماننا ہے امریکی حکام کا۔۔پینٹا گان کے Internal memo کے مطابقافغانستان لیتھیم کا سعودی عرب ہے۔ یعنی جتنا تیل سعودی عرب میں ہے اتنا لتھیم افغانستان میں ہے اور لیتھیم کے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر افغانستان میں موجود ہیں۔ جو موبائل فون، ٹیبلٹس، لیپ ٹاپ، کیمروں، ڈرونز اور دوسری ڈیوائسز کی بیٹریز کے علاوہ الیکٹرک کارز کی ری چارج ایبل بیٹریز کا بھی لازمی جزو ہے۔جو آج دنیا میں ختم ہو جائیں تو دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کا کام ٹھپ ہو جائے۔ اور افغانستان میں تیس کھرب ڈالر سے زائد کی یہ معدنیات موجود ہیں۔ جبکہ بہت سی جگہیں افغانستان میں بد امنی اور دیگر وجوہات کی بنا پر آج تکExplore ہی نہیں ہو سکی۔جیسے تیل سے مشرقِ وسطیٰ کی معیشت دیکھتے ہی دیکھتے بدل گئی ویسے ہی معدنیات سے مالامال ملک ان سے فائدہ اٹھا کر اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں۔جبکہ افغانستان میں یہ معدنیات اتنی بہتات میں موجود ہیں کہ یہ دنیا بھر کی انویسٹمنٹ کمنیوں کو اپنی طرف راغب کر سکتی ہیں اور وہاں نسلوں سے جنگیں لڑنے والے نوکریاں ملنے کی صورت میں اپنی قسمت بدل سکتے ہیں۔
لیکن اس وقت امریکہ کی صورتحال دیکھ کر چینی حکام یقینا قہقے لگا رہے ہوں گے۔ کہ امریکہ نے بیس سال میں ٹریلین ڈالر لگا کر ہزاروں فوجیوں کی قربانی دے کر کیا پایا۔جبکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چین جو روڈ نیٹ ورکس بنانے کا ماہر ہے، افغانستان میں کابل سے اسلام آباد تک روڈ کا منصوبہ تیار کیے بیٹھا ہے، کاپر کی مائننگ کا بڑا کنٹریکٹ وہ کرزئی حکومت کے دور میں لے چکا ہے جبکہ لیتھیم کی مائننگ کے منصوبے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ چین، روس اور پاکستان پر طالبان کی مدد کا الزام ہے جبکہ چین اور پاکستان کے آپس میں تعلقات بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اس لیے امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ چین طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان کی دولت سے مستفید ہو سکتا ہے۔ وہ افغانستان سے مزید Copper, cobalt اور سونا بھی نکالنے کی منصوبہ بندی کیے بیٹھا ہے تو امریکہ کو کیا ملا۔ امریکہ کی انڈسٹری اب کیسے Survive کرے گی جبکہ چین افریکہ میں بھی معدنیات کے بڑے منصوبے شروع کر کے بیشتر افریکی ممالک کو اپنے ہاتھ میں کر چکا ہے۔دنیا کو سمجھ نہیں آرہی کہ بائیڈن نے یہ کیا کیا ہے اور یہ امریکہ کی ایک Major strategic failure ہے۔ افغانستان کو اس وقت انفرا سٹرکچر کی ضرورت ہے جبکہ چین کو بھی اپنے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے لیے افغانستان میں انفرا سٹرکچر بلڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں کی ضرورتیں بھی ایک ہیں اور دوستی بھی۔چین کے پاس یہ قابلیت ہے کہ و ہ ایک سال میں 100 coal power plant تیار کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے اسے Raw material کی ضرورت ہے جو اب وہ افغانستان سے حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ طالبان سے کیا حاصل کر سکتا ہے۔

امریکہ کی منصوبہ بندی تھی کہ اس خطے میں امن قائم نہ ہو تاکہ چین یہاں پر اپنا کام نہ کر سکے اسی لیے اس نے ایک طرف طالبان سے معاہدہ کر کے نکلنے کا منصوبہ بنا لیا تو دوسری طرف افغان فورسز کو لڑائی کے لیے نہ صرف تیار بلکہ اکساتا رہا ۔ لیکن افغانستان کے ہمسایہ ممالک نے امریکہ کی اس چال کو الٹ کے رکھ دیا۔ اب طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں اگر امن قائم ہوتا ہے تو چین اس سے سب سے زیادہ مستفید ہو سکتا ہے۔
دوہزار دس کی ہی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 420 ارب ڈالر مالیت کا لوہا270 ارب ڈالر مالیت کا تانبہ بھی موجود ہے۔ جبکہ افغانستان کی جی ڈی پی بارہ بلین ڈالر کے قریب ہے۔ افغانستان میں غیر قانونی کان کنی پہلے ہی زوروں پر ہے،2001 کے بعد سے افغان حکومت کو مقامی سرداروں اور وار لارڈز کی جانب سے 30 کروڑ ڈالر سالانہ کا نقصان ہو رہا تھا۔ جب امریکہ نے دوہزار ایک میں افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت بھی افغانستان کے صوبے لوگر میں چین ایک تانبہ کی کان میںMining کر رہا تھا۔ صرف اسی کان میں تانبہ کی مالیت کا اندازہ لگایا جائے تو وہ پچاس بلین ڈالر سے زائد ہے۔لیکن میں یہ ویڈیو کرتے ہوئے مسلسل یہ سوچ رہا ہوں کہ پاکستان کو اس کا کیا فائدہ ۔۔۔۔ طالبان کے بعد اگر کوئی دوسرا گروپ یا ملک اگر اس فتح کا کریڈٹ لینے کا مستحق ہے تو وہ پاکستان ہے۔ اگر سب کچھ چین ہی لے جائے گا تو پاکستان کو اتنی قربانیاں دینے کا کیا فائدہ ہو گا۔ پاکستان کے پاس بلوچستان میں معدنی ذخائر نکالنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے تو افغانستان میں کیا کرے گا۔ کیا پاکستان صرف اپنی راہداری، گوادر اور سی پیک سے ہی مستفید ہو پائے گا۔ کیا پاکستان معدنیات کی منڈی نہیں بن سکتا۔چین کے پاس افغانستان پہنچنے کا پاکستان کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ افغانستان سے چین کی سرحد ایک برفانی اور پہاڑی علاقہ پر ہے جہاں سفر کرنا بہت مشکل اور مہنگا پڑتاہے۔
افغانستان کے صوبہ بدخشان کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے مویشی پالتے ہیں اور وہاں تاجر ٹرکوں پر کھانے پینے کی چیزیں اور آٹا لے جاتے ہیں اور اس کے بدلے میں ان کے مویشی خرید لاتے ہیں۔ اس روٹ پر ایک چکر کم از کم پندرہ دنوں میں مکمل ہوتا ہے۔ اور یہ صرف گرمیوں میں ہی ممکن ہوتا ہے۔تو پاکستان چین کے پاس واحد روستہ ہے اپنی چیزوں کو دنیا کی منڈیوں تک پہنچانے کا۔لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ہم ساری زندگی اپنی جغرافیائی اہمیت سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ بھی کچھ کر پائیں گے۔
بہر حال افغانستان میں امن پاکستان کو سینٹرل ایشیا سمیت پورے رجن کا تجارتی مرکز بنا دے گا، پاکستان کے لیے وسطی ایشیا کا توانائی سے مالامال علاقہ بھی کھل جائے گا۔
لیکن طالبان کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ اس کے لیے امن سمیت سرمایہ کاری کے لیےPerfect
ماحول فراہم کرنا پڑے گا۔ پاکستان اور افغانستان کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن پاکستان اس کے باوجود بلوچستان کی معدنیات سے مستفید نہیں ہو پا رہا۔ افغانستان کی معدنیات بھی ایک بٹن دبانے سے باہر نہیں آجائیں گی۔ بلکہ اس کے لیے دنیا کی بہترین کمپنیوں سے بہتریں کان کنوں کی ضرورت ہو گی۔ جبکہ شفاف کنٹریکٹس اور ممالک کے ساتھ معاہدے بھی ایک بڑا امتحان ہو گا۔
جبکہ اس وقت ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ افغانستان میں امن قائم ہو چکا ہے اور طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان پر قبضہ کرنا آسان اور اسے MAINTAINکرنا مشکل ہے۔ افغانستان کے تمام وار لارڈز ہمسایہ ممالک میں پناہ لے چکے ہیں ان کی طاقت ابھی تک موجود ہے، اگر طالبان نے انہیں حکومت میں جائز حق دے کر قومی حکومت نہ بنائی تو افغانستان میں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔

Leave a reply