عفو و درگذر تحریر   محمد آصف شفیق

0
53

عفوودرگزر اللہ رب العالمین کی پسندیدہ بندوں کی صفتوں میں  سے ایک صفت  ہے ,اللہ رب العالمین قرآن کریم میں  فرماتے ہیں

وَ مَنْ اَحْسَنُ  قَوْلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ  اِلَی اللہِ وَ عَمِلَ  صَالِحًا وَّ قَالَ  اِنَّنِیۡ مِنَ الْمُسْلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾   وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ  وَلَا السَّیِّئَۃُ ؕ اِدْفَعْ  بِالَّتِیۡ  ہِیَ  اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَبَیۡنَہٗ  عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ  وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ ﴿۳۴﴾   وَمَا یُلَقّٰہَاۤ  اِلَّا الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا ۚ وَمَا یُلَقّٰہَاۤ  اِلَّا ذُوۡ حَظٍّ عَظِیۡمٍ ﴿۳۵﴾ وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ ؕ اِنَّہٗ  ہُوَ السَّمِیۡعُ الْعَلِیۡمُ ﴿۳۶﴾      حٰم اسجدہ(34۔36)

نیکی اور بدی  یکساں نہیں ہیں۔  تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ تمہارا جگری دوست بن گیاہے۔   یہ صفت نصیب نہیں ہوتی  مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں ، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بٹرے نصیبے والے  ہیں۔   اور اگر تمہیں شیطان کی جانب سے کوئی وسوسہ پیدا ہو تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ بےشک وہ سنتا  اورجانتا ہے .   

 

پر امن زندگی ہر معاشرہ کی اولین ضرورت ہے، اس کے لئےقانون بنائے جاتے ہیں، پھر ان قوانین کے نفاذ کے لئے محکمے بنائے جاتے ہیں، لیکن آج کےجدید اور اپنے آپ کو مہذب کہلانے والے معاشروں میں قانون تو نظر آتا ہے لیکن سکون نظر نہیں آتا۔ اس سکون کی تلاش میں افراد  ادویات اور اس سے بڑھ کر منشیات کے عادی بن جاتے ہیں،دنیا کے اجمالی حالات پر نظر ڈالیں تو  یہ دنیا  ایک مہذب دنیا کا نہیں بلکہ ایک جنگل کا  نقشہ نظر آیا جس میں طاقت کےزور پر کمزور کو اپنا غلام بنانے، ان کے وسائل پر قبضہ کرنے، ان کو انتشار کا شکار کرنے کی منصوبہ بندی ایسے خوبصورت طریقہ سے کی جا رہی ہے کہ ان ممالک میں بسنے والے انسانوں کو سمجھ میں نہیں ہوتا کہ ان کے ملک میں کیا ڈراما ہو رہا ہے۔ اس سب کے منفی اثرات عام لوگوں کی زندگیوں پر  پڑ رہے ہیں،  انسان اپنی بنیادی ضرورت ” امن ” سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس انسانی اخلاق کی ترقی کے سارے ادارے ٹوٹ چھوٹ کاشکار ہو رہے ہیں۔ ان اداروں کو بچانے اور اس امن کے حصول کے لئے ہمیں  دین کی تعلیمات کی طرف رجوح کرنا ہوگا۔  تاکہ ہم اپنے اندر وہ اخلاق پروان چڑھا سکیں جو اس دنیا کو رہنے کے قابل بن سکے۔

موجودہ  تہذیب نے ہمارے اوقات پر قبضہ کر لیا ہے۔  ملٹی میڈیا  کی شکل میں آج انسانی اوقات کا بڑا حصہ  ٹی وی کے سامنے بیٹھے گذر جاتا ہے۔ یا وہ افراد جن کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے وہ  بڑےاوقات ونڈو بروزنگ میں گذار دیتے ہیں۔ دینِی علوم کا حصول کہیں بھی ترجہح اول  نہیں  ۔  اس طرح اصل علم  پر ایمان رکھنے کے باوجود اس سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

قرآن پاک اورنبی رحمتﷺ کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے آج اس سکون کو حاصل کرنے کے طریقوں پر غور کریں گے۔ 

عفو کے معنی  اللہ کی خوشنودی کی خاطر، انتقام لینے کی قدرت کے باوجود، درگذر سے کام لیناہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لئے  جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ "صبر” ہے۔

حضرت ابوہریرۃؓنے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا۔

میرے رب نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے ،کھلے اور چھپے ہر حال میں اللہ سے ڈرتا رہوں،کسی سے خوش ہوں یا کسی سے غصہ میں دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں،خواہ تنگ دستی ہو یا خوش حالی دونوں حالتوں میں راستی اور اعتدال پر قائم رہوں، اور مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں،جو مجھے محروم کرے میں اسے دوں،

اور جو مجھ پر زیادتی کرے میں اسے معاف کر دوں،اور یہ کہ میری خاموشی غور و فکر کی خاموشی ہو،

اور میری گفتگو ذکر الہٰی کی گفتگو ہو،اور میری نگاہ عبرت کی نگاہ ہو۔اس کے بعد نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا کہ میں نیکی کا حکم دوں اور برائی سے روکوں  (مشکواۃ شریف)

 

اگر کوئی اہم پیغام جس کو  ہر وقت اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہوتی تو اس کو  اُس جگہ لکھ لیا جاتا ہے جو ہمیشہ سامنے رہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی اکرمﷺ کی تلوار پر یہ کلمات لکھے ہوئے تھے:

جو ظلم کرے تو اسے معاف کر دے،جو تجھ سے رشتہ توڑتے تُو اُسے جوڑ دے،جو تجھ سے بدی کرئے تُو اُس سے نیکی کر،ہمیشہ  سچی بات کہہ  خواہ  تیرے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو

ایک دوسری حدیث میں  جس کی راوی  حضرت ابوذرغفاری ہیں، نبی اکرمﷺنے ارشاد فرمایا    

تو جہاں کہیں بھی ہو خدا سے خوف کر، بدی کے بدلے نیکی اور احسان کر، کیونکہ نیکی برائی کو مٹا دیتی ہے،  لوگوں سے نیک سلوک کر اور اُن سے حن اخلاق سے پیش آ۔

قرآن مجید میں معاف کر دینے، برائی کو نیکی سے تبدیل کرنے اور صبر کرنے کے سلسلہ میں بہت سی آیات آئی ہیں، جن میں سے چند ایک کو یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔وَسَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ  مِّنۡ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۳۳﴾ۙ  الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکٰظِمِیۡنَ الْغَیۡظَ وَالْعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿۱۳۴﴾ۚ   آل عمران (133۔134  )

دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے۔   جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، خواہ بدحال ہوں یا خوشحال،  اور جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں۔  اور اللہ ایسےہی  نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔

 

اللہ نے جن لوگوں کو اپنا بندہ کہا ہے، سورۃ فرقان میں ان کی پہلی نشان یہ بیان فرمائی ہے۔

وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَاماً Oالفرقان ۶۳

رحمان کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں، اور جاہل منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں تم کو سلام۔      

 

وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ           شوریٰ (42۔43)

اور جو صبر کرے اور قصور معاف کردے تو یہ ہمت کے کام ہیں

 

وَلَا يَأْتَلِ أُوْلُوا الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُوْلِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ        نور(22۔23)

اور جو لوگ تم میں صاحب فضل (اور صاحب) وسعت ہیں، وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ خرچ پات نہیں دیں گے۔ ان کو چاہیئے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تم کو بخش دے؟ اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ  وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ O

اے نبیﷺ!  نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرؤ ،  اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کرلو  اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے، تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو ،  وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اعراف(199۔200)

قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَآ أَذًى وَاللّهُ غَنِيٌّ حَلِيم۲۔۲۶۳ٌ بقرہ

جس خیرات دینے کے بعد (لینے والے کو) ایذا دی جائے اس سے تو نرم بات کہہ دینی اور (اس کی بے ادبی سے) درگزر کرنا بہتر ہے اور اللہ بےپروا اور بردبار ہے

وَجَزَاء سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ

اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے۔ مگر جو درگزر کرے اور (معاملے کو) درست کردے تو اس کا بدلہ اللہ کے ذمے ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ،   شوری(۴۲،۴۰)

حضرت یوسف کا بھائیوں کو معاف کر دینا اور  نبی اکرمﷺ کا  فتح مکہ کے دن عام معافی کا اعلان کرنا عفو درگزر کی عظیم مثالیں ہیں  جسکا ذکر قرآن کریم میں   اس طرح آیا ہے کہ 

قَالَ لا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ        سورۃ یوسف (٩٢)

کہا کہ آج کے دن سے تم پر  کوئی گرفت نہیں ہے۔  اللہ تم کو معاف کرے۔ اور وہ بہت رحم فرمانے والا ہے

عفو و درگزرکے ثمرات

ماحول پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، اخلاقی طو رپر ذمہ داران کو برتری مل جاتی ہے، ایک اچھی مثال قائم ہوتی ہے،مستقبل میں مسائل کو حل کرنے میں معاونت ملتی ہے۔دوسرے کے اخلاقی بنک میں ایک بہت بڑا DEPOSITEداخل کیا جا سکتا ہے۔

عفو و درگزرکے راہ میں رکاوٹیں

غصہ:  مندرجہ ذیل اسباب غصہ کا سبب بنتے ہیں:

غرور و تکبر,مذاق  اڑانا، مسخرہ پن عیب جوئی، طعنہ ذنی، ملامت ,اقتدار، مال و دولت اور شان و شوکت  کی حرص  وغیرہ

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ مغرور اور متکبر لوگ بہت جلد غصہ میں آجاتے ہیں، کیونکہ ان کے ذہین میں ان کا  اپنامقام بہت بلند ہوتا ہے، اگر ان کو  اس مقام میں ذرہ بھی کمی ہوتی محسوس ہو تو یہ ان کی برداشت سے باہر ہوتی ہے۔ ان کے لئے  اس دنیا  میں مقام اور عزت ہی سب کچھ ہوتا ہے، جس کو وہ ہر طریقہ سے  حاصل کرنا اور برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

اسی طرح  مذاق میں کبھی  کبھی ایسی بات کہی دی جاتی ہے  جو سخت ناراضگی کا سبب بن جاتی ہے۔ اور انسان یہ اندازہ کرنے سے قاصر ہوتا ہے کہ اس کی بات نے دوسرے پر کتنا بُرا اثر ڈالا ہے۔

اسی طرح  غیبت، عیب جوئی، چغلی اوربہتان میں نفرت اور غصہ چھپا ہے۔ اللہ رب العالمین ہمیں ان سب برائیوں سے بچائیں  ،آمین یا رب العالمین

@mmasief

 

Leave a reply