آغا محمد شاہ حشر کاشمیری .تحریر : ریحانہ صبغتہ اللّٰہ

آغا محمد شاہ حشر کاشمیری 3 اپریل 1879ءکو بنارس میں پیدا ہوئے ۔ان کا نام آغا محمد شاہ،اورتخلص حشر تھا ۔وہ ایک مشہور و معروف کشمیری خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ان کے والد کا نام آغا محمد غنی شاہ تھا۔ جو کشمیر میں شالوں کا کاروبار کرتے تھے ۔
آغا محمد شاہ حشر کاشمیری نے ابتدائی تعلیم مدرسہ سے حاصل کی ۔اسی مدرسہ کے حافظ عبد الصمد سے عربی ،فارسی اور دینیات کی تعلیم حاصل کی اور سولہ سپارے بھی حفظ کر لئے تھے ۔اس کے بعد جے نارائن سکول میں داخلہ لیا لیکن نصاب میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم مکمل نہ کرسکے اور ڈرامہ نگاری کے شوق میں بمبئی چلے گئے ۔اور کم عمر میں ہی شاعری شروع کردی۔1897ءمیں محض 18سال کی عمر میں ایک ڈرامہ "افتاب محبت”لکھا اور اصلاح کے لئے مہدی حسن لکھنوی کے پاس لے گئے تو انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ڈرامہ لکھنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے ۔اس کو آغا حشر نے بطور چیلنج قبول کیا اور اس کے بعد اس طنز کا ایسا جواب دیا کہ آغا حشر کے بغیر اردو ڈرامہ کی تاریخ مکمل ہو ہی نہیں سکتی ۔آغا محمد شاہ حشر کو جو شہرت ،مقبولیت، عزت اور عظمت حاصل ہوئی وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی ۔
آغا حشر نے 19سال کی عمر میں ڈرامہ نگاری میں نام پیدا کر لیا تھا ۔اس کے بعد آپ نے انگریزی زبان سیکھی اور شیکسپئر اور دیگر مغربی ڈرامہ نگاروں کو پڑھا اور بعض کا اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا ۔
ڈرامہ سیریل "آفتاب محبت”کے بعد آغا حشر نے بے شمار ڈرامے لکھے جن میں خواب ہستی ،رستم وسہراب،مرید شک ،اسیر حرص ،ترکی حور ،آنکھ کا نشہ ،یہودی کی لڑکی ،خوبصورت بلا ،سفید خون اور میٹھی چھری جیسے لازوال کردار تخلیق کیے ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے آغا محمد شاہ حشر کاشمیری کو ہندوستان کے شیکسپیئر کا خطاب بھی مل گیا ۔اور پورے ہندوستان میں آغا محمد شاہ حشر کاشمیری کی مقبولیت کے چرچے زبان زدِ عام ہونے لگے۔ مکالمہ نگاری میں بھی آغا حشر کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔آغا حشر مکالمہ نگاری کے بانی ہیں ،ان کے مکالمے زبان سے نکلتے ہیں اور دل میں اترتے چلے جاتے ہیں ۔دیکھنے اور سننے والے ان کا وہی تاثر لیتے ہیں جو آغا حشر دینا چاہتے ہیں ۔
چراغ حسن حسرت آغا حشر کی مقبولیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
” ابھی ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا ،جو کچھ تھا تھیٹر ہی تھیٹر تھا ۔یوں تو اور بھی اچھے ڈرامہ آرٹسٹ موجود تھے ،لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے ۔اور آغا سے پہلے اس فن کی قدر بھی کیا تھی ؟بچارےسارے ڈرامہ آرٹسٹ تھیٹر کے منشی کہلاتے تھے ۔”
پروفیسر حفیظ احسن اپنی راۓ کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ:
"ایک قادر الکلام اور شیریں بیان شاعر ہونے کی وجہ سے آغا حشر کے ڈراموں کی زبان میں بلا کی روانی ہے ۔”
بقول پروفیسر طاہر شادانی کہ:
"جذبات کی تصویر کشی میں آغا حشر ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔”
آغا محمد شاہ نے جب اپنی ڈرامہ کمپنی کا آغاز کیا تو اس کا نام بھی انڈین شیکسپیئر تھریٹیکل کمپنی رکھا ۔آغا حشر نے اپنے عہد میں سماج کے ہر طبقے کے لوگوں اور ہر طرح کے موضوع پر اپنی بےباک راۓ کو اپنے قلم کے ذریعے ڈرامے کی شکل میں لوگوں تک پہنچایا ۔آغا حشر کاشمیری نے اردو ڈراموں میں ایک نئی جہت پیدا کی اور سٹیج ڈراموں کو بازاری پن اور عامیانہ ماحول سے نکال کر خالص ادبی صنف بنایا ۔آغا حشر کو شاعری پر بھی عبور حاصل تھا ۔وہ شاعرانہ تخیل کو سیدھے الفاظ اور عام بول چال میں بیان کرتے ۔وہ اتنے جلدی اشعار کہتے تھے کہ سننے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ۔ان کے ڈراموں کی کامیابی میں ان کا شاعرانہ اسلوب بھی کار فرما ہے ۔آغا حشر کے ڈراموں کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مصائب اور پریشانی میں احساس شکست پیدا کرنے کی بجائے ان مصائب سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ اور زندگی کی شمع روشن کرنے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں ۔
آغا حشر کاشمیری ایک اچھے مصنف اور شاعر کے علاوہ ایک اچھے اداکار بھی تھے ۔
بہرحال جب فن فنکار کی پہچان بن جاتا ہے تو یہی فن اسے صدیوں تک زندہ رکھنے کا ضامن بن جاتا ہے ۔
آغا حشر کاشمیری اُفق کے اس ستارے کا نام ہے جس کی روشنی میں اردو ادب کی روایت ہمیشہ قائم و دائم رہے گی ۔ بلآخر فن کی بلندیوں پر چمکنے والا یہ ستارہ 28اپریل 1935ءکو غروب ہو گیا۔
(انا للہ وانا الیہ راجعون)
آغا حشر کاشمیری لاہور کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں ۔اللہ تعالیٰ آغا حشر کاشمیری کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)