کشمیری شاعر صحافی احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر سماعت ہوئی
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے کل تک کا وقت مانگ لیا،نمائندہ وزارت دفاع نے عدالت میں کہا کہ ہم نے پتہ کیا ہے لیکن کہا گیا ہے بندہ ان کے پاس نہیں ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو کل طلب کر لیتا ہوں،یہ معاملہ اب ان کے دائرہ اختیار سے آگے نکل چکا ہے،یہ ان کی ناکامی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں کوئی کام نہیں کر سکتے،دوسری صورت میں ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی پیش ہوں، ادارے اگر اس قابل ہی نہیں کہ اپنا کام کر سکیں تو انکی ضرورت نہیں، پھر اسکے بعد میں وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کو طلب کروں گا،پھر میں وزیراعظم کو طلب کرونگا، یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، پھر وزیراعظم اور پوری کابینہ کو طلب کرونگا،پوری کابینہ کو یہاں بٹھا کر ان سے فیصلہ کرواؤں گا،یہ کیا طریقہ ہے کہ جب دل چاہا دروازہ کھٹکھٹا کر بندہ اٹھا لیا، ہمارے ادارے اگر 32 کلومیٹر کے شہر میں سیکیورٹی مہیا نہیں کر سکتے تو پھر انکی ضرورت نہیں،ایک طرف میسج بھیجیں اور پھر کہیں کہ بندہ ہمارے پاس نہیں، میں تنبیہ کر رہا ہوں کہ عدالتی فیصلے کے بڑے اثرات ہونگے،
سیکٹر کمانڈر کوئی چاند پر رہتا ہے بہت بڑی طاقت ہے؟ کیا حیثیت ہے اس کی؟ایک گریڈ 18 کا بندہ ہے آپ نے اسے کیا بنا دیا ہے؟ جسٹس محسن اختر کیانی
جسٹس محسن اختر کیانی نے ایس ایس پی پولیس سے استفسار کیا کہ کیا سیکٹر کمانڈر کا بیان لکھا ہے؟ ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر نے عدالت میں کہا کہ جی ہم نے ضمنی بیان لیا ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے ایس ایس پی کو حکم دیا کہ کل باقاعدہ بیان لے کر عدالت میں پیش ہوں،آپ بیان لیں پھر میں سیکٹر کمانڈر کو بھی طلب کرونگا، سیکٹر کمانڈر کوئی چاند پر رہتا ہے بہت بڑی طاقت ہے؟ کیا حیثیت ہے اس کی؟ایک گریڈ 18 کا بندہ ہے آپ نے اسے کیا بنا دیا ہے، مت تابع ہوں ان کے، ملک چلنا ہے تو اُن کے بغیر بھی چل جائے گا،اب فیصلہ ہو گا کہ یہ ملک ایجنسیز چلائیں گی یا قانون چلائے گا،
شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی،جسٹس محسن اختر کیانی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ، درمیان میں مغوی کی بیوی سے کوئی رابطہ نہیں کرنا،سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کل 3 بجے ذاتی حیثیت میں پیش ہوں
جھوٹ بول کر پٹیشن واپسی کی درخواست دائر کرنے پر احمد فرہاد کو چھوڑنے کے پیشکش ہوئی،ایمان مزاری کا عدالت میں انکشاف
قبل ازیں،عروج زینب کی مغوی شوہر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پراسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی،اسلام آباد ہائیکورٹ نے مغوی شاعر احمد فرہاد کی بازیابی درخواست پر وزارت دفاع سے تین بجے تک رپورٹ طلب کر لی، دوران سماعت ایمان مزاری ایڈوکیٹ نے انکشاف کیا کہ عدالت میں جھوٹ بول کر پٹیشن واپسی کی درخواست دائر کرنے پر احمد فرہاد کو چھوڑنے کے پیشکش ہوئی،کہا گیا کہ اغوا کے بجائے پٹیشنر کے خود اپنی مرضی سے جانے کا بتائیں،جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف کی راہ میں مداخلت ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کو بتا دیں بندہ ہر صورت چاہیے۔ اپنے اوپر سے اغوا کار کا لیبل ہٹوائیں۔ تفتیشی افسر ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکٹر کمانڈر کا بیان قلمبند کرے ،ایک متفرق درخواست آئی ہے اس میں کیا ہے؟ ایمان مزاری ایڈوکیٹ نے کہا کہ سترہ مئی یعنی جمعہ کی رات کو پٹیشنر کو شوہر کے وٹس ایپ نمبر سے کال آتی ہے۔ ان کے پیچھے سے دو مزید افراد کی آوازیں آ رہی تھیں جو دباؤ ڈال رہے تھے۔ کہا گیا کہ پٹیشن واپس لیں تو بندہ ہفتے کے روز واپس آ جائے گا لیکن کورٹ کو جھوٹ بولنا ہے کہ احمد فرہاد کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ وہ اپنی مرضی سے گئے تھے۔ بارہا رابطے کیے جا رہے ہیں اور بہت زیادہ پریشر ڈالا جا رہا ہے۔ تین ڈرافٹس ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان شیئر ہوئے۔ احمد فرہاد واپس نہیں آئے اس لئے ہم درخواست واپس نہیں لے رہے۔ اگر یہ اغوا برائے تاوان ہوتا تو وہ پیسے مانگتے۔ یہ واضح طور پر جبری گمشدگی کا کیس ہے،
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک آدمی کو اغوا کر کے رکھا ہوا ہے، اپنے اوپر سے اغوا کا لیبل ہٹوائیں، مجھے اب آئی ایس آئی سے بندہ چاہئے۔ سیکرٹری دفاع ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ میں وارنٹ گرفتاری جاری کروں گا۔ تفتیشی افسر آج ہی ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکٹر کمانڈ کا بیان لکھیں۔ احمد فرہاد دہشت گرد ہے؟ کیا بھارت سے آیا ہے یا اغوا برائے تاوان میں ملوث ہے ؟ ایس ایس پی آپریشنز نے عدالت میں کہا کہ نہیں، سر ایسا نہیں ہے، نمائندہ وزارت دفاع نے عدالت میں کہا کہ ایک دو دن کا وقت دے دیں، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ اتنا وقت کیوں چاہئے؟ آپ نے کیا پوچھنا ہے کہ باجوڑ والے سیف ہاؤس میں ہے یا کشمیر والے؟ کیا آپ کبھی اغوا ہوئے ہیں؟جسٹس محسن اختر کیانی کے استفسار پر وزارت دفاع کے نمائندے نے جواب دیا نہیں،عدالت نے کہا کہ جو اغوا ہوئے ان پر کیا گزرتی ہے، ان کو ہی پتہ ہوتا ہے۔ آپ کے پاس گیارہ بجے تک کا وقت ہے،نمائندہ وزارت دفاع نے کہا کہ رابطہ کرنے کے لیے وقت چاہئے، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ان کے دفاتر چاند پر ہیں جو رابطے میں وقت لگے گا۔ لوگوں کو اس نہج پر نا لے کر آئیں کہ اداروں کا جینا مشکل ہو جائے۔ میں اس کیس کو ڈی بی کے بعد تین بجے دوبارہ سنوں گا۔ تین بجے تک جواب لائیں، ورنہ آرڈر پاس کروں گا،
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن نے کہا کہ پورے ادارے پر الزام عائد نہیں ہو سکتا،عدالت نے کہا کہ پھر بتائیں کہ کیا کوئی ان کا ترجمان ہے جس کا نام لیں؟ آپ لوگوں نے اپنے ادارے سے متعلق رائے تبدیل کرنی ہے۔ اسٹیٹ کا فرنٹ فیس نامعلوم افراد نہیں پولیس ہے، عدالت نے تین بجے تک کیس کی سماعت ملتوی کر دی
سرکاری اداروں کا یہ کام ہے کہ کرپٹ افسران کو بچانے کی کوشش کرے؟چیف جسٹس برہم
بلیک میلنگ کی ملکہ حریم شاہ کا لندن میں نیا”دھندہ”فحاشی کا اڈہ،نازیبا ویڈیو
بحریہ ٹاؤن،چوری کا الزام،گھریلو ملازمین کو برہنہ کر کے تشدد،الٹا بھی لٹکایا گیا
بحریہ ٹاؤن کے ہسپتال میں شہریوں کو اغوا کر کے گردے نکالے جانے لگے